عجمی اسرائیل از شورش کاشمیری 664

عجمی اسرائیل از شورش کاشمیری

عجمی اسرائیل شورش کاشمیری
ایک انڈر گرائونڈ خطرے کا تجزیہ. قادیانی ،پاکستان میں استعماری گماشتے ہیں

قادیانی مذہب کی پناہ لیتے ہیں لیکن سیاست کا ناٹک کھیلتے ہیں،جب کوئی ان کے سیاسی عزائم کا محاسبہ کرتا ہے تو وہ مذہب کے حصار میں بیٹھ کر “ہم اقلیت ہیں ” کا ناد بجادیتے اور عالمی ضمیر کو معاونت کے لیے پکارتے ہیں جس سے حقائق ناآشنا دنیا سمجھتی ہے کہ پاکستان کے “جنونی مسلمان”گویا اپنی ایک چھوٹی سی اقلیت کو کچل دینا چاہتے ہیں۔

“پاکستان خطرے میں ہے داخلی اعتبار سے بھی اور خارجی اعتبار سے بھی” یہ اس تاثر کاخلاصہ ہے جوپاکستان میں ہر کہ ومہ کی زبان پرہے ۔حزب اقتدار اور حزب اختلاف بہ اختلاف الفاظ دونوںہی اس کی نشاندہی کرتی ہیں۔ خود صدر مملکت نے بعض غیر ملکی جرائد کے وقائع نگاروں کو معنی خیز اشارات میں ان خطرات کاذکرکیااور ملک میں جتنی بھی سیاسی جماعتیں اپوزیشن سے منسو ب ہیں وہ کھلم کھلا ان خطرات کوبیان کرتی ہیں۔ ان میں اختلاف ہے تو خطرے کی نوعیت اور اس کے تعین کا،خطرے کے وجود اور امکان پرسب کواتفاق ہے اور سبھی اس کوشدت سے محسوس کرتے ہیں ۔
بظاہر داخلی اور خارجی دونوںخطرات ایک دوسرے سے الگ الگ اور آپس میں کٹے چھٹے ہو ئے ہیں ،لیکن صورت حال کی اندرونی فضا خارجی اثرات کے تحت اتنی مربوط ہے کہ الگ الگ مہرے بھی ایک شطر نج کے مہرے نظر آرہے ہیں ۔
خطرات کایہ احساس جواب عوام کے دلوں میں اتر چکا ہے اولاًمعاہدہ تاشقند (۱۹۶۵ء) کے فوراًبعد ملک کے خواص کو خلو تیانِ راز کی معرفت معلوم ہوا تھا اور لوگ محسوس کرنے لگے تھے کہ پاکستان عالمی طاقتوں کی سیاسی خواہشوں کے نرغہ میں ہے ۔آخر مشرقی پاکستان کے (۱۹۷۱ء) الگ ہوکر بنگلہ دیش بن جانے سے ساراملک بلکہ ساری دنیا باخبر ہوگئی کہ پاکستان عالمی طاقتوں کی سیاسی خواہشوں کامحور ہوچکاہے اوراب پاکستان میں اضطراب وتشویش اورتشتت وانتشار کی جو لہریں دوڑ رہی ہیں وہ تمام تر عالمی طاقتوں کے اسی طرز عمل اور پاکستان کی اندرونی سیاست کے اسی اتار چڑھائو کانتیجہ ہے۔

داخلی طورپر خطرہ کی نوعیت یہ ہے کہ برسر اقتدار پارٹی (پیپلز پارٹی )جوسرحد و بلوچستان میں صوبائی نمائندگی سے محروم ہے اپنی مدمقابل سیاسی جماعت نیشنل عوامی پارٹی (نیپ ) کو پاکستان کی مزید تقسیم کے عالمی پس منظر میں آلہ کار ٹھہراتی اور اس کی طاقت کوسبو تاژکرکے سیاسی تصادم کے پہلو دار امکانات پیدا کر رہی ہے ادھر اس الزام کی نیپ کے حلقے تردید کرتے ہیں ،لیکن پروپیگنڈامشینری (ریڈیو،ٹیلی ویژن ،اخبارات وغیرہ )پیپلزپاٹی کے ہاتھ میںہیں اس لیے سندھ ایک حدتک اور پنجاب بڑی حدتک نیپ کوپیپلزپاٹی کے الفاظ میں پاکستان دشمن کہتے ہوئے جھجکتانہیں ،بلکہ ایسا کہنا اپنی حب الوطنی کا روز مرہ خیال کرتا ہے ۔پیپلزپارٹی کے شہ دماغوں کااصل نزلہ خان عبدالوالی خاںپر گرتا ہے ، جن کاجرم تویہ ہے کہ وہ صدر بھٹو کی مخالفت میں شروع دن سے ثابت قدم ہیں ۔لیکن ان کے خلاف فرد جرم یہ ہے کہ وہ خان عبدالغفارخان کے فرزند ہیں اور خان عبدالغفار خان سرحدی گاندھی ہیں اور آزادی کے آخری لمحہ تک انڈین نیشنل کانگریس کے زعماء میں سے تھے ،وغیرہ ۔

پاکستان پیپلزپارٹی اور نیشنل عوامی پارٹی کی مخاصمت کانقطہ عروج یہ ہے کہ اوّل الذکر نے مرکزی اقتدار کے بل پرموخر الذکر کی سرحد وبلوچستان میں وزارتیں برخاست کرکے سرحد کو طالع آزمائوں کے سپرد کردیا اور بلوچستان جو اْس وقت عالمی سیاست کے نزدیک اپنے معدنی خزائن اور جغرافیائی سواحل کی وجہ سے غایت درجہ اہمیت کاعلاقہ ہے ،نواب اکبر بگٹی کی گورنری کو سونپ دیا بْگٹی پنجاب سے اس حد تک بیزار تھے کہ ان کے نزدیک بھارت کے ہاتھوں پنجاب کی شکست ہی میں مغربی پاکستان یا موجودہ پاکستان کی آزادی کا انحصار تھا اور وہ اپنے ان خیالات کو کبھی چھپاتے نہیں تھے ۔
پنجاب وسرحد میں بہمہ وجوہ پیپلزپارٹی کی عوامی طاقت میں حیرت انگیز کمی ہو گئی ہے ، اب اْس کی طاقت کا نام صرف حکومت ہے ۔ایک دوسری حقیقت جو اس بحث میں قابل ذکرہے وہ پڑھے لکھے طبقے بالخصوص اسلامی ذہن پر پیپلز پارٹی کے مخالف عنا صر کارسْوخ ہے اور یہ رسوخ شروع دن سے ہے ۔صدر بھٹو کسی وجہ سے بھی اس طبقے کو کبھی متاثر نہیں کرسکے ،یہ کہنا شاید غلط نہ ہو کہ پیپلز پارٹی اقتدار کے بعد اپنے سیاسی تلوّن اور واضح غلطیوں کے باعث مقبولیت عامہ کے اعتبار سے روز بروز ماندپڑ رہی ہے۔
ملک کی عمو می فطرت کے مطابق بعض خاص عناصر جو صرف اقتدار کے لیے جیتے اور اقتدار ہی کے رہتے ہیں ، صدر بھٹو کو مختلف واسطوں سے شکست دینے کے خواہاں ہیں ۔ان کے سامنے حصول اقتدار کے لیے ہر نظریۂ صحیح ہے ویسے وہ کبھی کسی نظریہ کے نہیں رہے ، ان کا یہ نظریہ ان کی اپنی ذات ہے ۔اس بو قلمونی نے ملک میں عجیب و غریب صورت حال پیدا کردی ہے۔ ایک لحاظ سے ہم اس صورت حال کو ذہنی خانہ جنگی کانام دے سکتے ہیں کہ بالفاظ دیگر اس صورت حال کو ہم ان الفاظ میں مختصر کر سکتے ہیں کہ جانبین اپنے اپنے دوائر میں ملک کے تشتت وانتشار کی پروا کیے بغیر(غیرارادی طور پرہی سہی )پاکستان کوایک ایسے موڑ پر لے آئے ہیں جہاں پاکستان کی نظریاتی بنیادیں ٹوٹ رہیں اور اس کا سیاسی استحکام روز بروز کمزور پڑ رہا ہے ،جس سے عالمی طاقتوں کی سیاسی خواہشوں کو آب ودانہ مل رہا ہے ۔
خارجی خطرہ عوام محسوس کر رہے اور خواص کو معلوم ہوچکا ہے ۔اس کا پس منظر مختصراً یہ ہے کہ:

1. بھارت نے برطانوی اقتدار کی رخصتی کے وقت پاکستان کوسیاستاًقبول کیا تھا لیکن ذہناً قبول نہیں کیا ۔

2. پاکستان کو مٹانے اور جھکانے کا خیال بھارت نے شروع دن سے ترک نہیں کیا ۔ ابتداً پاکستان کے روپے کی روک ،مہا جرین کابے تحاشہ بوجھ ،حیدر آباد کاسقو ط ،کشمیر پرقبضہ ، لیاقت نہرو معاہدے سے انحراف ،لیاقت علی کا قتل ،ناظم الدین کی سبکدوشی ،محمد علی بوگرہ کی درآمد، سکندرمرزا کی آئین کشی،ایوب خاں کامارشل لاء،۱۹۶۵ء کی جنگ ،ایوب خاں کے اقتدار کاخاتمہ ،مشرقی پاکستان کی برہمی،یحییٰ خاں کااقتدار اور ڈھاکہ کا سقوط ۔ان سب چیزوں میں بھارت برابر کا شریک رہا۔ کسی میں بالواسطہ اور کسی میں بلا واسطہ ۔ مثلاًلیاقت علی کے سانحہ قتل میں ہندوستان نہیں تھا مگر عالمی طاقتیں پاکستان کوجس نہج پرلانا چا ہتی تھیں فی الجملہ ہندوستان کسی نہ کسی طرح اُن منفی خواہشوں میں شریک تھا ۔بالفاظ دیگر پاکستان کے معاملہ میں عالمی طاقتوں کے سیاسی نقشے ہندوستان کی مشاورت سے تیار ہوتے رہے اور اب بھی ہندوستان ان نقشوں کے خاکے تیار کرنے میں جزو اً یاسالماًحصہ دار ہے۔

3.  عالم اشتراکیت میں روس اور چین کی آویزش سے امریکہ اور روس میں خود بخود ایک ذہنی سمجھو تہ (گو اس کی بنیاد میں دوستانہ خیر خواہی نہ تھی) ہوگیا۔امریکہ کے لیے اطمینان کا پہلو یہ تھاکہ روس اور چین میں ٹھن جانے سے اشتراکیت مغرب سے عملاًدستکش ہوجاتی اور اپنی ایک ہم عقیدہ ریاست (چین )سے متصادم ہوکرنہ صرف متحدہ طاقت کی حیثیت سے تقسیم ہوجائے گی بلکہ عالمی سیا ست کا نقشہ ہی پلٹ جائے گا۔روس نے غنیمت سمجھا کہ اس طرح وہ ایشیااور افریقہ میں اپنا اثر بڑھا سکے گا۔عرب دنیا اس کی مٹھی میں ہوگی اور گرم پانی کے جن سمندروں اور کناروں کی اُس کو تلاش ہے اُن کا راستہ مل جائیگا مرو (روس کی حد ) سے لے کر بلو چستان میں جیونی تک ایران و افغانستان کی سرحدوں کے بیچوں بیچ زمین کی ایک پٹی اُس کے ہاتھ آجائے گی جو اقتصادی اعتبار سے ایک عالمی طاقت بننے کے لیے اشد ضروری ہے ۔چین اور ہندوستان کی آویزش جو اس عالمی تصادم ہی کا ایک پارٹ ہے روس اور امریکہ کی ان خواہشوں کے عین مطا بق ہے۔ہندوستان اشتراکی ہو جائے تو ۷۵ کروڑچینیوں کے بعد ۵۰ کروڑ کا مالک سوشلزم کی گودمیں چلا جاتاہے۔ پھر سامراج کے لیے افریشیامیں کوئی جگہ نہیں رہتی ۔چین کا طوفان اسی طرح روکا جاسکتا ہے کہ ہندوستان اشترا کی نہ ہواور چین سے اُس کی ٹھنی رہے تاکہ محاذ سیدھا عالمی طاقتوں کی طرف منتقل نہ ہو ۔ ہندوستان نے روس اور امریکہ سے ہمیشہ یہی کہا کہ مضبوط ہندوستان چین کا مقابلہ اُسی صورت میں کر سکتا ہے جب اس کے دو شا نوں پر موجود پاکستان اس کے لیے خطرہ نہ ہو یا نہ رہے۔
یہ تھا پاکستان سے امریکہ کی دغا اور روس کی دخل اندازی کا نقطئہ آغاز ۔امریکہ نے فیلڈ مارشل ایوب خان کومشترکہ دفاع پرزور دیا ۔لیکن تب عوام کی ذہنی فضااور بھارت سے مسلسل آویزش کے با عث ممکن نہ تھا ۔فیلڈ مارشل ایوب خاں کے اس پر راضی نہ ہونے کا نتیجہ یہ نکلا کہ:

أ-امریکہ کے رسوائے عالم ادارہ سی آئی اے نے پاکستان میں قدم جمانے شروع کیے ۔ (اس کی محیر العقول تفصیلات ہیں ،افسوس کہ اس مقالہ کا موضوع نہیں اور یوں بھی وہ تفصیلات ایک جامع کتاب کا مضمون ہیں۔

ب-سی آئی اے کے ایک سفارتی اہلکار نے سب سے پہلے فوج میں نقب لگانی چاہی ، ایک بریگیڈیر سے جو اس اہلکار کا جگری دوست تھا جب ٹکا سا جواب پایا توسی آئی اے نے سی ایس پی کے افسروں کو اپنے منصوبوں کی تکمیل کے لیے تلاش کیا ۔

ج- مرکزی انٹیلی جنس بیور و کے ڈائریکٹر جنرل کوسی آئی اے کے اس اہلکار سے یہ جان کرحیرت ہوئی کہ وہ مغربی پاکستان کے تمام تھانوں کی عوامی طاقت ،بندوقوں کی تعداد اور ان کے سا ختہ سنین سے واقف تھا اور اسے ایک عوامی انقلاب کی شکل میں ان کی اجتماعی کار کردگی کا اندازہ تھا ۔

د- مرکزی انٹیلی جنس بیورونے صدر ایوب کو پشاور میں ہاشم کی فا ئرنگ سے قبل از وقت آگاہ کر دیا تھاکہ صورت حال اس طرح بنائی جا رہی ہے (ضروری نہیں کہ ہاشم بھی اس سے آگاہ ہو ، راقم)
ر- اس فا ئرنگ کے بعد راولپنڈی چھائونی سے دس پندرہ میل آگے (قصبہ کا نام یاد نہیں آر ہا سرکاری رپورٹوں میں محفوظ ہوگا )پشاور تک مختلف دیہات کے لوگ بغاوت کے انداز میں سڑکوں پر آگئے لیکن مسٹر الطاف گوہر یا مسٹر این اے رضوی کی کار روکنے کے سوا کوئی اجتماعی مظاہرہ کسی نتیجہ کے ساتھ نہ ہو سکا ۔خبر نذر احتساب ہو گئی
(۴) ۱۹۶۵ء کی جنگ میں بھا رت کی محرومی نے عالمی طاقتوں کو پاکستان سے متعلق ایک دوسری سوچ اور اس کے عمل میں ڈال دیا ،وہ سوچ اور عمل تھا:
ا۔ اگر تلہ سازش
ب۔ چھ نکات
ج۔ مشرقی پاکستان کی مغربی پاکستان سے علیحدگی کا منصوبہ اور تحریک ۔
۵۔ ۱۹۶۹ء کی عوامی تحریک صدر ایوب کی گول میز کانفرنس پر ختم ہوگئی اور ملک اس انقلا ب کے ہا تھوں نکل گیا جو عالمی طاقتوں کی اسکیم کے مطابق تھا لیکن یحییٰ خاں نے جو اس وقت کمانڈر انچیف تھا اپنے سیاسی رفقا ء کی معرفت اس کانفرنس کے نتائج کا بھُر کس نکال دیا،نتیجتاً مارشل لاء آگیا ۔
۶۔ یحییٰ خاں کیا تھا ؟ یہ راز ابھی تک سر بستہ ہے ،لیکن اس کے برسر اقتدار آنے سے سی آئی اے سرگرم ہوگئی ۔مشرقی پاکستان کی سیا ست تین حصوں میں بٹ گئی اور تین طاقتوں نے اپنی سیاست کی بسا ط وہاں بچھادی ۔روس ،امریکہ ،چین ۔مولانا بھاشانی چین کے لیے مفید نہ ہوسکے ،مجیب ابتداً امریکہ کے بال وپرلے کر چلا تھا، اب روس کی سیاست بھی اس کے ساتھ ہوگئی کہ وہ چین کا حریف تھا۔
مشرقی پاکستا ن کا مغربی پاکستان سے کٹ کے بنگلہ دیش ہونا محض شیخ مجیب الرحمن کے چھ نکات کا نتیجہ نہ تھا بلکہ مغربی پاکستان کے حکمران اور ان کے دست پناہ سیاست دان اس نتیجہ کے لیے خود زمین تیار کر رہے تھے اور وہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی ہی سے اپنے مقتدر اعلی ہو نے کی تعبیر پاسکتے تھے اور وہی ہوا ۔جس نقاب پوش جماعت نے اس مہم میں عالمی استعمار کے بلا واسطہ مُہرے کی حیثیت سے حصہ لیا اُس کی تفصیلات ذرا طویل ہیں اور آگے چل کر ان کا بڑا حصہ ّبیان ہوگا ۔ یاد رکھنے کی چیز یہ ہے کہ مشرقی پاکستان صرف اس لیے پاکستان سے الگ کرایا گیا اور علیحدہ کیا گیا کہ عالمی طاقتیں ہندوستان کی خواہش کو پر وان چڑھا کر اپنا راستہ بنا رہی تھیں اور مغربی پاکستان کے حکمران وسیاست دان (جو بھی تھے یا ہیں ) اپنے اقتدار کا را ستہ صاف کر رہے تھے ۔
۷۔ سی آئی اے کسی ملک یا قوم میں اپنے مقاصد کے لیے کسی ایک کو آلہ کا ر یا گما شتہ نہیں بنا تی، وہ بیک وقت کئی افراد سے کا م لیتی اور وہ افراد ایک دوسرے سے متصادم ہوتے ہیں انہیں بسا اوقات یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ وہ ایک ہی ایجنسی کے فر ستادہ ہیں ۔
(۸) مغربی پاکستان…… صرف پاکستان ہو کر رہ گیا ۔تو معلو م ہوا کہ یہا ں ایک جماعت یا ایک فرد کا مالک مختار ہو نا مشکل ہے کئی چہرے اور بھی ہیں ۔اسی بو قلمونی کا نتیجہ ہے کہ:
ا۔ مغربی پاکستان عالمی طاقتوں کی متحارب خواہشوں کے نرغہ میں ہے ۔
ب- پختونستان ،بلو چستان اور کسی پیمانہ پر سندھو دیش کا تصور آب ودانہ حاصل کرنے کی فکر میں ہیں ۔یہ وہ چیزیں ہیں جو حکمرانوں سے لے کر سیاست دانوں کے حلقے میں ہر روز گفتگو کے پیچ و خم میں زیر بحث آتی ہیں ’’ ایسا ہو سکتا ہے یا ایسا کبھی ہوگا‘‘ کی بحث سے قطع نظر جو چیز بھی ہے وہی خارجی خطرہ ہے اور اسی کے با ل وپر ملک کی سیا سی فضا میں توانائی حاصل کر رہے ہیں۔
اس داخلی و خارجی خطرے نے پاکستان کے لیے موت و حیات کا سوال پیدا کر دیا ہے ۔حزب اقتدار ، حزب اختلاف کے پیچھے پڑی ہوئی ہے کہ وہ اس کی طاقت چھیننا یا بانٹنا چا ہتی ہے ۔ادھر حزب اختلاف نے اقتدار کو چتھاڑنا یا پچھاڑنا اپنا مطمح نظر بنا لیا ہے ۔ لیکن اصل خطرہ اور اس کے پس منظر پر کسی کی نگاہ نہیں اور اگر کسی کی نگاہ اس طرف جا تی ہے تو محاسبہ نہیں ہو رہا اور نہ کو ئی اس خطرہ کے تعاقب کی ضرورت محسوس کرتا ہے۔
اس معلوم حقیقت کے بعد کہ عالمی استعمار با قیماندہ پاکستان کے حصے بخرے کرنے پر تُلا ہواہے ۔سوال ہے وہ کونسی جماعت ہے جو اس سطح پر عالمی استعمار کی آلہ کار ہے۔ ظاہر ہے وہ کوئی ایسی جماعت ہی ہو سکتی ہے جس کی تا ریخی خصوصیت پر عالمی استعمار کو بھروسہ ہو اور وہ ہیں احمدی ____ قادیانی۔جب کبھی قادیانی اُمت کا احتساب کیا گیا ، گو اس احتساب کی عمر بہت تھوڑی ہے لیکن خود قادیانی مذہب کی عمر بھی زیادہ نہیں مر زا صاحب نے ۱۸۹۱ء میں مسیح موعود ہونے کادعوی کیا پھر ۱۹۰۱ء میں اپنے نبی ہونے کا اعلان فرمایا گو یا ۱۹۷۳ء میں ان کی نبوت کے ۸۳ سال ہوتے ہیں۔ تواس اُمت نے اپنے اقلیت ہونے کی پناہ لی اور واویلا کیا کہ اسے سوادا عظم ہلاک کرنا چاہتا ہے۔ ہندوستان میں برطانوی علمداری تک تو قادیانی اپنے لیے کو ئی خطرہ محسوس نہ کرتے تھے۔اُنہیں مر زا صاحب کے الہام کی رو سے اپنے خود کاشتہ پودا ہونے کا احساس تھا اور وہ جا نتے تھے کہ جس استعمار نے اُنہیں پیدا کیا وہی ان کا محا فظ و پشتیبان ہے ۔پاکستان بنا تو وہ کوئی اہم اقلیت نہ تھے اہم عنصر ضرور تھے۔ انہوں نے اولاً ہندوستان میں رہنے کی بہیتری کوشش کی ۔ریڈکلف کو میمو رنڈم دیا ۔سردار ظفراللہ خاں نے پاکستان کی سرحدی ترجمانی کے علاوہ اس یاداشت کی تر جمانی کی ۔جب اس طرح بات نہ بنی تووہ قادیان میں تین سوتیرہ درویشوں کو چھوڑ کرپاکستان آگئے ۔پاکستان میں سرظفر اللہ خان کی وزارت خارجہ ان کے لیے ایک سہارا ہوگئی ۔جن لوگوں کوسیاسی اقتدار منتقل ہواتھا وہ قادیانیت کے مذہبی پہلو سے نا واقف تھے۔ ان کا خیال تھا کہ قادیانی ان کے لیے کسی خطرے کاباعث نہیں ہوسکتے بلکہ حکومت سے وفاداری ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی ہے۔ جب پاکستان کی سیاست خواجہ ناظم الدین جیسے بزرگوں کے ہاتھ میں آگئی اور ان کی کا بینہ میں وہ لوگ شامل ہوگئے جو سیاسی نہ تھے بلکہ برطانوی علمداری کے دنوں سے ملازم چلے آرہے تھے تو قادیانیت اور محفوظ ہوگئی ۔ملک غلام محمد اور اسکندر مر زا نے اس کو مزید تحفظ دیا وہ سمجھتے تھے کہ قادیانی پاکستان جیسے مذہبی ملک میں ایک ایسی اقلیت ہیں کہ ان کے خلاف کسی سازش یا منصوبہ میں شریک نہیں ہوسکتے بلکہ ان پر مقتدرین کے شخصی وحزبی تحفظ کابار ڈالا جا سکتا اور سیاستہً اعتماد کیا جا سکتا ہے ۔اس کے برعکس عام مسلمانوں کا اجتماعی مزاج یہ تھا کہ وہ کسی حالت میں بھی مرزائیت کے ساتھ مصالحت کے لیے تیار نہ تھے ۔غرض پانچ سال کے اندر اندر ۱۹۵۳ء کی تحریک نے قادیانیت کومعنوی اعتبار سے تلپٹ کردیا مر زا ئی تبلیغ کے دروازے بند ہوگئے وہ نقاب اُتر گئی جوان کے سیاسی منصوبوں پر مذہب کا پردہ بنی ہوئی تھی ۔بظاہر مرزاناصر احمد نے ابھی (الفضل ۱۳مئی ۱۹۷۳ء)دعویٰ کیا کہ وہ دنیا میں ایک کروڑ ہیں اور پاکستان میں چا لیس لاکھ ۔لیکن واقعہ یہ ہے کہ میرزائی ایک کروڑ ہیں نہ ۴۰لاکھ ۔اگر وہ پاکستان میں اس قدر ہیں تو حکومت سے اپنی گنتی کرا لینے کا مطالبہ کیوں نہیں کرتے ؟اور مردم شما ری سے گریز اں کیوں ہیں ؟
قادیانی اُمت کا تعاقب پہلی جنگ ۱۸-۱۹۱۴ء کے اختتام تک مذہبی محاذ پر درجہ محدودتھا ۔ پھر ۱۹۳۲ء تک محاسبہ مذہبی حدودمیں پھیلتا گیا۔ چودھری افضل حق علیہ الرحمۃ نے سب سے پہلے ان کی سیاسی روح کا جا ئزہ لیا۔علامہ اقبال علیہ الرحمۃ نے (۱۹۳۵ء) پنڈت جواہر لال نہرو کے جواب میں مضمون لکھ کر مرزائیت کو اس طرح بے نقاب کیا کہ مسلمانوں میں سیاسی طور پر ذہنی فضا پیدا ہوگئی کہ مرزائیوں سے دوستانہ ہاتھ بڑھانے والااونچا طبقہ جس کی ذہنیت مغربی افکار کی آزادی سے مرعوب تھی ، مرزائیت سے چوکناّ ہوگیا اور مسلمانوں کے عمرانی ،سیاسی ،تہذیبی ،تعلیمی ادارے بڑی حد تک اُن کے لیے بند ہوگئے ۔اس کے بعد وہ مسلمانوں سے مخاطبت کا حوصلہ نہ رکھتے تھے ۔ ظفراللہ خاں نے پاکستان بن جانے کے بعد خواجہ ناظم الدین کی مرضی کے خلاف کراچی میں اپنے جلسہ عام کو خطاب کرنا چاہا لیکن عوامی احتجاج کی تاب نہ لاکر نوک دُم بھاگ گئے۔
قادیانی بحیثیت جماعت پاکستان آکراپنے مستقبل کے بارے میں متذبذب تھے لیکن مرزا بشیر الدین محمود (خلیفہ ثانی ) اس غلط فہمی کا شکار ہوگئے کہ جو عناصر قادیانیت کے مخالف تھے چونکہ اُن کی جماعت تحریک پاکستان میں شامل نہیں ہوئی لہٰذاوہ پاکستان کے عوام میںمتروک ہوچکے ہیں ۔اب اگر قادیانی اقتدار کی طرف قدم اُٹھائیں یا تبلیغ کے لیے بڑھیں تو انہیں روکنے والا کوئی نہیں ہوگا ۔بلوچستان کو احمدی صوبہ بنانے کا اعلان مرزا محمود کی اس غلط فہمی کا نتیجہ تھا، لیکن مجلس تحفظ ختم نبوت کا مشترکہ محاذ کہہ لیجئے یا احرارہی کے ذمہ لگا دیجئے بہرحال ۱۹۵۳ء میں مرزائی چاروں شانے چت ہوکر رہ گئے تب سے ان کی حیثیت ایک ایسے طا ئفہ کی ہے جو بین الاقومی بساط پر استعماری مُہرے کی حیثیت سے کام کرتا اور پاکستان میں عالمی طاقتوں کے سا مراجی مقاصد کی آبیاری کرتاہے۔
قادیانی ہمیشہ سے یہ تا ثر دیتے چلے آرہے ہیں کہ انہیں مُلا قسم کے لو گ مذہب کے واسطے سے مارنا چاہتے اور ان کی مٹھی بھر اقلیت کی جان ،مال اور آبرو کے دشمن ہیں ۔اس تاثرکے عام دنیا با لخوص مغربی دنیا میں پھیل جانے کی واحد وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں جو لوگ ان کا محاسبہ کر رہے اور ان کے خطرہ کی گھنٹی بجاتے ہیں وہ اکثر و بیشتر نہ تو یورپ کی زبانوں سے واقف ہیں نہ ان ممالک میں ان کے تبلیغی مشن ہیں اور نہ ان کے پاس مغربی دنیا سے بات چیت کرنے کے لیے ظفراللہ خان جیسی کوئی استعماری شخصیت ہے اور نہ انہوں نے کبھی مغرب کے لو گوں کو قادیانی مسئلہ سمجھانے کا سوچا ہے۔
پاکستان میں مسلمانوں کی حالت یہ ہے کہ جب تک کوئی خطرہ ان کے سر پہ آکر مسلط نہ ہوجائے وہ نو ٹس نہیں لیتے ۔پھر اسلام کے نام پر جتنی عریاں گالی سیاسی حریف کو دی جاتی ہے اسلام کے حریف کو اس طرح چتھاڑا نہیں جاتا بلکہ سرے سے باز پُر س ہی نہیں کی جاتی ،الٹا یہ کہہ کر خاموشی اختیار کرنے پر زور دیا جاتا ہے کہ فرقہ وارانہ مسئلہ ہے ۔
مرزائی اُمت کے شاطر ین حد درجہ عیار ہیں کوئی شخص اس پر غور نہیں کرتا کہ جب قادیانی ایک مذہبی اُمت بن کر اپنے سیاسی اقتدارکے لیے سعی و سازش کرتے ہیں تو وہ انہی بنیادوں پر اُس اُمت کے فر د کو اپنے محاسبہ کا حق کیوں نہیں دیتے ؟اُمت میں نقب لگا کر انہوں نے اپنی جماعت بنائی ہے عجیب بات ہے کہ قادیانی اُمت کا محا سبہ کیا جائے تو وہ سیاسی پناہ تلاش کرتے ہیں ۔سیاسی محاسبہ کریں تو وہ مذہبی اقلیت ہونے کا تحفظ چاہتے ہیں ۔مسلمانوں کے ساتھ مذاق نارواہے کہ ایک ایسی جماعت جو اس کے وجودکو قطع کرکے تیار ہوئی ہے وہ اصل وجود کو اپنے اعضا ء وجوار ح کی حفاظت کا حق دینا نہیں چاہتی اور جو عارضہ اُن کو قادیانی سرطان کی شکل میں ما ردینا چاہتا ہے اس کے علاج سے روکتی ہے ۔
حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں سے اپنے الگ ہو نے کا اعلان سب سے پہلے خود قادیانیوں نے کیا ۔مر زا غلام احمد کو نہ ماننے والے کافر قرار دئیے گئے ۔اُن کے بچوں، عورتوں ،معصوموں اور بوڑھوں کا جنازہ پڑھنے سے روک دیا گیا ۔انہیں زانیہ عورتوں کی اولاد، کتیوں کے بچے اور ولد الزنا تک کہا گیا ۔ مسلمانوں نے تو اس سے بہت دیر بعد محا سبہ شروع کیا اور انہیں اپنے سے خارج قرار دیا۔جب مرزائی خود مسلمانوں سے الگ اُمت کہلاتے ہیں تو پھر اُنہیں مسلمانوں میں شا مل رہنے پر اُس وقت اصرار کیوں ہوتا ہے جب مسلمان ان کے الگ کر دینے کا مطالبہ کرتے اور انہیں اقلیت قراردیتے ہیں ،آخر کیا وجہ ہے کہ قادیانی مذہبی اور معاشرتی طور پر عقیدۃً مسلمانوں سے الگ رہتے لیکن سیاستہً اُن کا پنڈنہیں چھوڑتے ۔ اس کی واحد وجہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ اس طرح وہ مسلمانوں کے حقوق و مناصب پر ہا تھ صاف کرتے اور ان کی ریاست پر حکمران ہونا چاہتے ہیں یا پھر انہیں مٹاکر اپنا سیاسی نقشہ مرتب کرنے کی جدو جہد میں ہیں ۔
ایک خطرناک صورت حال جو ہمارے ہاں پیدا ہو چکی ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے مغرب زدہ طبقے نے جس کے متعلق علامہ اقبالؒنے سید سلمان ندوی کو لکھا تھا کہ:’’ میں ڈکٹیٹر بن جائوں تو سب سے پہلے اس طبقے کو ہلاک کر دوں ۔‘‘ابھی تک نہ قادیانی مذہب کو سمجھنے کی ضرورت محسوس کی ہے کہ وہ خود مذہب سے بیگانہ ہو رہا ہے اور وہ قادیانی اُمت کے سیاسی عزائم کی مضر توں سے آگاہ ہے ۔وہ یہی سمجھتا ہے کہ ایک چھو ٹی سی اقلیت کو مسلمانوں کے کٹ مُلا ّ تنگ کر رہے ہیں ۔ان کی چُگی داڑھی دیکھ کر اور ان کے تبلیغی اداروں کی روداد سن کر انہیں مسلمان سمجھتا ہے، کیونکہ اُس کے اپنے ظاہری و با طنی وجود سے اسلام خارج ہوچکا ہے۔
ان لوگوں سے بجا طور سوال کیا جا سکتا ہے کہ مسلمان ایک وحدت کا نام ہیں اور یہ وحدت ختم نبوت کے تصور سے استوار ہوئی ہے ۔اگر کوئی اس وحدت کو تو ڑتا ہے اور ختم نبو ت کی مرکزیت کو ظلی وبروزی کی آڑ میں اپنی طرف منتقل کرنا چاہتا ہے تو کیا اُس کا وجود خطرناک نہیں ، باغی کون ہے؟وہ یا محاسب ؟ کیا اپنی قومی سرحدوں کی حفاظت کرنا جرم ہے یا مذہبی جارحیت ؟ بعض لوگ رواداری کا سبق دیتے ہیں ،لیکن وہ رواداری کے معنی نہیں جانتے اگر وہ رواداری کے معنی غیرت ،حمیت ،عقیدے،مسلک اور اپنے شخصی یا اجتما عی وجود سے دستبردار ہو جانے کے ہیں تو یہ معانی کہاں ہیں ؟اور کس تحریک، داعی ، پیغمبر اور نظام نے بتلائے ہیں ۔قادیانیوں کے باب میں مسلمانوں کا معاملہ ذاتی نہیں اجتماعی ہے اور اس کے عناصر اربعہ میں غیرت و حمیت ،عقیدہ و مسلک شامل ہیں ۔
مسلمانوں کا مطالبہ کیا ہے ؟ صرف اتنا کہ قادیانی جب مسلمانوں سے الگ ہیں تو وہ مسلمانوں میں رہتے کیوں ہیں ؟ہمارا اعتراض ان کے پاکستان میں رہنے پر نہیں مسلمانوںمیں رہنے پرہے وہ پاکستان میں رہنا چاہتے ہیں تو شوق سے رہیں ۔پھر اس کا فیصلہ وہ خودہی کرلیں کہ مسلمانوں کے مسلّمات کا استعمال ان کی ظلی نبوت اور علیحٰدہ اقلیت کے حسب حال ہوگا یا نہیں ؟ اس سے مسلمانوں کی دل آزاری تو نہیں ہوتی ؟یہ کہنا کہ پاکستان میں کوئی جماعت یاشخصیت ان کی جان ،مال،اور آبرو کی دشمن ہے اور انہیں معدوم کرنے کی دوڑ میں لگی ہوئی ہے جیسا کہ آزاد کشمیر اسمبلی کی سفارش پرکہ مرزائی خارج از اسلام اور علیحٰدہ اقلیت ہیں مرزاناصر نے واویلا کرتے ہوئے کہاہے کہ ہم سر ہتھیلی پر لیے پھرتے ہیں اور وقت آنے پردنیا دیکھ لے گی کہ جان کیونکردی جاتی ہے۔ یہ محض ماروں گھٹناپھوٹے آنکھ قسم کی اڑا ن گھاٹی ہے ، پاکستان میں کوئی شخص نہ اُن کی جان کا دشمن ہے ،نہ مال کا اور نہ آبرو کا ۔اس قسم کی باتیں صرف کمینہ لوگ کرتے اور کمینہ لوگ اُچھالتے ہیں ۔ہم جو کچھ کہتے وہ یہ ہے کہ قادیانی اُمت ہمارے مطالبہ سے قطع نظر خود اپنے پیغمبر اور خلیفہ کی ہدایت و روایت کے مطابق مسلمانوں سے الگ اُمت ہے تو پھر وہ سرکاری طور پر الگ کیوں نہیں ہو جاتی ؟ا س طر ح وہ محمدعربیﷺ کی اُمت میں سے غلام احمد کی امت تیار کرنا چاہتی اور عالمی استعمار کے مُہرے کی حیثیت سے مسلمانوں کی وحدت کو پاش پاش کرکے اپنے لیے عجمی اسرائیل پیدا کرنے کی متمنی ہے ۔
یہ غلط ہے کہ قادیانی مسئلہ (Sectarian)ہے جیساکہ پا کستان کی حکومتیں اس غلط فہمی کا شکار رہی ہیں اور اب تک یہی سمجھتی ہیں ۔قادیانی مسئلہ اپنی پیدائش سے اب تک(Political)ہے ۔ افسوس کہ مسلمانوں نے اس کا نو ٹس بہت دیر سے لیا اور اس کی وجہ بھی ظاہر ہے کہ مسلمانوں کی سیادت جس مغرب زدہ اور اقتضائے اسلام سے معریٰ طبقے کے ہاتھ میں رہی ہے اُس نے استعمار کی ہر ضرورت کا ساتھ دیا اور دین سے ہر بغاوت کو نظر انداز کیا ہے اور اس کے ذہن کا پورا کار خانہ ابھی تک اسی نہج پرقائم ہے ۔اگر قادیانی مسئلہ صرف مذہب کا ہو تا تو علماء کا تعاقب کافی تھا ۔ قادیانی مسئلہ سیاسی مسئلہ ہے جس نے بتدریج ایک ایسی شکل اختیار کرلی ہے کہ وہ باطنیت ،اخوان الصفا اوربہائیوں کی طرح اپنی زمین میں منہمک ہے ۔اس کے سامنے معتزلہ کی تاریخ ہے ۔قادیانی جانتے ہیں کہ کس طرح معتزلہ نے اقتدار حاصل کیا اور کیونکر باطنیہ نے فا طمیہ سلطنت قائم کی ۔وہ ان سب کے تاریخی تجربوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے جدید سیاسی نہج پر اقتدار حاصل کرنا چاہتے اور اس زمانہ میں جب کہ انسان عالمی ہوگیا اور سیاست بین الاقوامی ہوگئی ہے،ایک دوسرے پر انحصار کے تحت مغربی استعمار کی بدولت پاکستان کو عجمی اسرائیل میں منتقل کرنا چاہتے اور افریقہ میں جزیرۃالعرب کے خلاف قادیانی اسلام کا استعماری سیل Cell بنانا چاہتے ہیں قادیانیوں کا سیاسی روپ اُسی صورت میں معلوم ہوسکتا اور سمجھ میں آسکتاہے جس صورت میں کہ ہم اس کے تا ریخی مآخذ اور اُس کی عمومی رفتار سے واقف ہوں۔
مرزاغلام احمد نے انگریزوں کی حمایت میں بہ قول خود پچاس الماریاں لکھیں اور ان کی وفا داری میں نہ صرف قرآن سے جہاد کو منسوخ کیا بلکہ برطانیہ کے ہا تھوں اسلامی حکومتوں کی شکست وریخت پر چراغاں کیا اور یہی قادیانی اُمت کی تخلیقی غایت تھی ۔اس غرض ہی سے قادیانی فرقہ وجود میں لایا گیا اور برطانوی استعمار نے گود میں لے کر جوان کیا ۔
اس وقت میرے سامنے وہ کتاب نہیں،مصنف اور کتاب کا نام بھی یا د نہیں آرہا ۔ پاکستان کے ایک بڑے افسر عاریتاً لے گئے ۔پھر اپنی نظر بندی کے باعث میں اُن سے کتاب واپس نہ لے سکا ، اس کتاب میں احمدیت کی افریقہ میں تگ و پو کا جا ئزہ لیا گیا اور اس کے خط و خال بیان کیے گئے ہیں ۔یہ میری یاد داشت کے مطابق کیمبرج کے ایک پروفیسر نے لکھی اور اس میں بعض عجیب و غریب باتیں تحریر کی ہیں، وہ لکھتا ہے کہ پادریوں کی ایک نمائندہ جماعت نے برطانوی وزارت خارجہ سے شکایت کی کہ افریقہ میں مسیحیت کی تبلیغ کے راستہ میں قادیانی مزاحم ہوتے ہیں کیا وجہ ہے کہ ان قادیانیوں کے تمام مشن برطانوی مقبوضات ہی میں ہیں اور وزارت خارجہ ان کی محافظت کرتی ہے ۔وزارت خارجہ نے جواب دیا،سلطنت کے مقاصد تبلیغ کے مقاصد سے مختلف ہیں ۔آپ ان کا مذہب کی صداقت سے مقابلہ کیجئے ، سلطنت کی طاقت سے نہیں ۔امور سلطنت کے مضمرات مختلف ہیں ۔اس راز کی گرہ ایک برطانوی دستاویز ’’دی ارائبول آف برٹش ایمپائر ان انڈیا‘‘(برطانوی سلطنت کا ہندوستان میں ورود)سے کھُلتی ہے ۱۸۶۹ء میں انگلینڈ سے برطانوی مدیروں اور مسیحی راہنما ئوں کا ایک وفد اس بات کا جا ئزہ لینے کے لیے ہندوستان پہنچا کہ ہندوستانی باشندوں میں برطانوی سلطنت سے وفاداری کا بیج کیونکر بویا جا سکتا اور مسلمانوں کو رام کرنے کی صحیح ترکیب کیاہو سکتی ہے؟ اس زمانہ میں جہاد کی روح مسلمانوں میں خون کی طرح دوڑ رہی تھی اور یہی انگریزوں کے لیے پریشانی کا سبب تھا ،اس وفد نے ۱۸۷۰ء میں دورپورٹیں پیش کیں ،ایک سیاست دانوں نے، ایک پادریوں نے جو محولہ نام کے ساتھ یکجا شائع کی گئیں ،اس مشترکہ رپوٹ میں درج ہے کہ:
’’ ہندوستانی مسلمانوںکی اکثریت اپنے روحانی راہنمائوں کی اندھادھند پیر وکار ہے۔ اگر اس وقت ہمیں کوئی ایسا آدمی مل جائے جو اپاسٹالک پرافٹ( حواری نبی ) ہونے کا دعویٰ کرے تو بہت سے لوگ اس کے گرد اکٹھے ہوجائیں گے۔ لیکن مسلمانوں میں سے ایسے شخص کو ترغیب دینا مشکل نظر آتا ہے ۔یہ مسئلہ حل ہوجائے تو پھر ایسے شخص کی نبوت کو حکومت کی سر پر ستی میں بہ طریق احسن پروان چڑھا یا جا سکتا اور کام لیا جا سکتا ہے ۔ اب کہ ہم پو رے ہندوستان پر قابض ہیں تو ہمیں ہندو ستانی عوام اور مسلمان جمہور کی داخلی بے چینی اور با ہمی انتشار کو ہوا دینے کے لیے اسی قسم کے عمل کی ضرورت ہے۔ ‘‘
مرزا غلام احمد اس بر طانوی ضرورت ہی کی استعماری پیدا وار تھے ۔مولانا سیّد ابوالحسن علی ندوی ناظم دارالعلوم ’’ندوۃالعلماء‘‘ لکھنؤاس استعماری پیداوار کا تجربہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’مرزا غلام احمد نے در حقیقت اسلام کے علمی و دینی ذخیرہ میں کوئی ایسا اضافہ نہیں کیا جس کے لیے اصلاح و تجد ید کی تاریخ ان کی معترف اور مسلمانوں کی نسل جدید اُن کی شکر گزار ہو۔ انہوں نے نہ کوئی دینی خدمت انجام دی جس کا نفع دنیا کے سارے مسلمانوں کو پہنچے ۔نہ وقت کے جدید مسائل میں سے کسی مسئلہ کو حل کیا، نہ ان کی تحریک موجودہ انسانی تہذیب کے لیے جو سخت مشکلات اور موت وحیات کی کشمکش سے دو چار ہے ،کوئی پیغام رکھتی ہے نہ اُس نے ہندوستان کے اندر تبلیغ و اشاعت کا کوئی کارنامہ انجام دیا ہے ،اس جدوجہد کا تمام ترمیدان مسلمانوں کے اندر ہے اور اس کا نتیجہ صرف ذہنی انتشار اور غیر ضروری کشمکش ہے جو اس نے اسلامی معاشرے میں پیدا کردی ہے ،اسلام کی صحیح تعلیمات سے انحراف اور ان مخلصین و مجاہدین کی (جو ماضی قریب میں اس ملک میں پیدا ہوئے اور اسلام کے عروج اور مسلمانوں کی نشاۃ ثانیہ کے لیے اپنا سب کچھ لٹا کر چلے گئے ) ناقد ری کی سزا خدانے یہ دی کہ مسلمانوں پر ایک ذہنی طاعون کومسلط کردیا اور ایک ایسے شخص کوان کے درمیان کھڑا کر دیا جو اُمت میں فساد کا مستقل بیج بوگیا ۔‘‘ قادیانیت از ابوالحسن علی ندوی : ۲۲۳-۲۲۴
مرزاغلام احمد کی خصوصیت اس کے سوا کچھ نہ تھی کہ اس نے:
۱۔مسلمانوں میں اپنی نبوّت ومسیحیت کا ڈھونگ رچا کر انتشار ،تقسیم اور فساد پیدا کیا ۔
۲۔جہاد کی قرآنی تعلیم کو منسوخ کیا۔
۳۔ہندوستانی اقوام میں باہمی فساد کی نیو اٹھائی۔
۴۔دینی لٹریچر میں سب وشتم کی بنیاد رکھی ۔
۵۔برطانوی حکومت کی نسلاًبعد نسلٍ وفا داری کو مذہبی عقیدہ کی الہامی سند مہیا کی۔
۶۔محمدعربیﷺ کی اُمت میں سے اپنی امت پیدا کی جس نے اپنے نہ ماننے والوں کو کا فر جان کر مسلمانان عالم کے ابتلا ٔومصائب سے لا تعلقی اختیار کی حتیٰ کہ ان کی شکست وریخت پر خوشیاں منائیں اور برطانوی فتح ونصرت کو انعامات ایزدی قرار دیا ۔
ان کے فرزند مرزامحمود احمد (خلیفہ ثانی )نے قادیانی امت کو برطانوی خواہشوں کے محور و مرکز پر مستحکم کیا اور اسے ایک ایسی سیاسی تحریک بنا دیا جو برطانوی استعمار کی خدمت گزار اور اپنے حزبی اقتدار کی طلبگار ہو گئی ۔خلیفہ محمود رحلت کر گئے تو ان کے بیٹے خلیفہ ثالث مرزا ناصر نے دادا کے مشن اور باپ کے منصوبے کو ایسی شکل دی کہ آج وہ سب کچھ پاکستان کے لیے ایک سیا سی خطرہ بن چکا ہے ۔
خوف طوالت کے پیش نظر ان تفصیلات کا ذکر بے سود ہوگا کہ مرزا غلام احمد کے والد مرزا غلام مر تضیٰ نے ۱۸۵۷ء میں مسلمانان پنجاب کے خون سے ہولی کھیل کر انگریزی سرکار کی خوشنودی اور اعتماد حاصل کیا ۔ان کے بڑے بھائی مرزاغلام قادرنے مشہور سفاک جنرل نکلسن کی فوج میں شامل ہوکر ۴۶ نیو انفنٹری کے باغیوں کو تریموگھاٹ پر بھون ڈالا ۔ان باغیوں کو صرف گولی ہی سے نہیں اُڑایا بلکہ اُن کا مُشلہ کیا ،انہیں درختوں سے باندھ کر اعضاء قطع کیے ، انہیں چتائوں میں ڈالا ،ان پرہاتھی پھرائے ،ان کی ٹانگیں چیر کر رقص بسمل کا تماشہ دیکھا ۔
پس منظر کے طو ر پر یہ جان لینا ضروری ہے کہ مرزائی امت کا اصل کردار کیا رہا اوراس نے تبلیغ کی آڑ میں برطانوی ملو کیت کے لیے کہاں کہاں جاسوسی کے فرائض انجام دئیے۔ بالخصوص مسلمان ملکوں میں ان وفود کا مقصد کیا تھا؟کیا وہ مسلمانوں کو مسلمان بنانے کے لیے جزیرہ العرب ،افغانستان ، اور ترکی میں گئے تھے اور اب تک اسی لیے افریقہ و اسرائیل میں موجود ہیں ۔
اسرائیل عربوں کے قلب میںناسور ہے۔ تقریباًتمام مسلمان ریاستوں نے اس کا مقاطعہ کر رکھا ہے ۔پاکستانی مشن وہاں نہیں ،لیکن قادیانی مشن وہاں ہے ۔سوال ہے وہ کس پر تبلیغ کرتاہے، مسلمانوں پر یا یہودیوں پر آج جو چند مسلمان اسرائیل میں رہ گئے ہیںوہ قادیانی مشن کے استحصال کی زد میں ہیں ۔
غور کیجئے جس اسرائیل میں عیسائی مشن قائم نہیں ہوسکتا وہاں اسلام کے لیے قادیانی مشن لطیفہ نہیں تو کیا ہے ؟
اس مشن سے جو کام لیے جا رہے ہیں وہ ڈھکے چھپے نہیں تمام عالم عر بی میں اس کے خلاف احتجاج ہو چکا اور ہو رہا ہے لیکن مشن جوں کا توں قائم ہے ۔
۱۔ اس مشن کی معرفت عرب ریاستوں کی جاسوسی ہوتی ہے ۔اس مشن کی وساطت سے حجاز وار دن کی فضائیہ کے پاکستانی افسروں سے جو بعض دفعہ قادیانی بھی ہوتے ہیں ، وہاں کے راز حاصل کیے جاتے اور اسرائیل کو پہنچائے جاتے ہیں ۔
۲۔ اس مشن کی معرفت اسرائیل کے بچے کھچے مسلمان عربوں کو عرب ریاستوں کی جا سوسی کے لیے تیار کیا جا تا ہے ۔
۳۔ اس مشن کی معرفت پاکستان کی اندرونی سیاست کے راز لیے جاتے اور اسلام دوستوں سے متعلق مطلوبہ خبریں حاصل کی جا تی ہیں ۔
۴۔ اس مشن کی معرفت پاکستان میں عالمی استعمار اور یہود ی استحصال کی راہیں قائم کی جاتیں اور سیاسی نقشے در آمد برآمد ہوتے ہیں ۔خود صدر بھٹو پاکستان میں تل ابیب کی سیاسی مداخلت اور صہیونی سرمایہ کی زمانہ انتخاب میں آمد کا انکشاف کر چکے ہیں،اور یہ ایک حقیقت ہے کہ تل ابیب کا سرمایہ پاکستان کے عام انتخاب میں مقامی مرزائیوں کی معرفت اسی مشن کی وساطت سے آیا تھا اور یحییٰ کے زمانہ میں اکثر وزراء نے خود راقم الحروف سے اس کی روایت کی تھی۔
۵ ۔ پا کستان کو اس وقت جو خطرہ در پیش ہے اس میں قادیانی امت اور تل ابیب کا گٹھ جوڑ عالمی استعمار کی مخفی خواہشوں کو معرض وجود میں لانے کا ذریعہ Link بن چکا ہے۔
پاکستان میں اسلام کے خلاف ۱۹۷۰ء کے جنرل الیکشن میں جوسب سے بڑی ذہنی بغاوت ہوئی اس کے منتظم قادیانی تھے جواسرائیل کے حسبِ ہدایت کام کر رہے تھے۔ یہ کوئی مفروضہ نہیں کھلی حقیقت ہے اور پیش آمدہ واقعات کا تسلسل اس کی تصدیق کرتا ہے۔پھر یہ کوئی نئی چیز نہیں قادیانی امت شروع ہی سے اس قسم کے مشن قائم کرنے کی عادی ہے ۔مثلاًمرزامحمود نے شاہ سعود اور شریف مکہ کی آویزش کے زمانہ (۱۹۲۱ء) میں اپنے ایک مرید میر محمد سعید حیدر آبادی کو مکہ بھیجا ۔وہاںاس نے اونے پونے راز اٹھائے اور آگیا ۔اسی طرح ترکی میں دو قادیانی مصطفیٰ صغیر کی ٹیم کا رُکن ہوکر گئے ۔ایک ثقہ روایت کے مطابق مصطفیٰ صغیر خود قادیانی تھا اور مصطفیٰ کمال کو قتل کرنے پر مامو رہوا تھا، لیکن قبل از اقدام پکڑا گیا اور موت کے گھاٹ اتارا گیا۔
مر زامحمود احمد کے سالے میجر حبیب اللہ شاہ فوج میں ڈاکٹر تھے ۔وہ پہلی جنگ عظیم میں بھرتی ہو کر عراق گئے ۔انگریزوں نے بغداد فتح کیا تو انہیں ابتداً گورنر نامزد کیا۔ ان کے بڑے بھائی ولی اللہ زین العابدین جو قادیان میں امور عامہ کے ناظررہے ،عراق میں قادیانی مشن کے انچارج تھے لیکن فیصل نے ان کی سر گرمیوں سے آگاہ ہوتے ہی نکال دیا۔ گورنمنٹ آف انڈیا نے وہاں ان کے ٹکے رہنے پر زور دیا۔ لیکن عراق گورنمنٹ نے ایک نہ مانی ۔
غالباً ۱۹۲۶ء میں مولوی جلال الدین شمس کو شام بھیجا گیا ۔وہاں کے حریت پسندوں کو پتہ چلا تو قاتلانہ حملہ کیا ۔آخر تاج الدین الحسن کی کا بینہ نے شا م بدر کردیا ۔جلال الدین شمس فلسطین چلا گیا اور ۱۹۳۱ء تک برطا نوی انتداب کی حفاظت میں عرب ملکوں میں استعمار کی خدمت بجا لاتا رہا ۔ جب تک برطانیہ ہندوستان میں حکمران رہا اس نے روس کو اپنے لیے خطرہ سمجھا ۔اس غرض سے مختلف لبادوں میں مختلف مشن ،روس (وسط ایشیا کے اسلامی ممالک )میں بھجوائے۔ بالخصوص ان علاقوں میں جو ہندوستان کی سرحد کے ساتھ آباد تھے اور روس کو وہاں اقتدار حاصل تھا۔ اس غرض سے پنڈت موہن لال ،پنڈت من پھول ،مولوی فیض محمد ، بھائی دیوان سنگھ اور مولوی غلام ربانی کے سفر نامہ کی بعض جھلکیاں عام ہو چکی ہیں ۔ مولانا محمد حسین آزاد کے نواسے آغا محمد با قر نے اپنے نانا کے سفر کو اسی نوعیت کی جاسوسی قرار دیا ہے ۔ ادھر۱۹۲۱ء میں مو لو ی محمد امین قادیانی ایران کے راستہ روس گئے انہیں روس میں داخل ہو تے ہی پکڑ لیا گیا اور دوسال جیل میں رہے، لیکن واپس آنے کے کچھ عرصہ بعد مرزامحمود نے ایک اور نوجوان مولوی ظہور حسین کے ساتھ انہیں واپس بھجوا دیا چونکہ پاسپورٹ نہیں تھے اس لیے ایران کے راستہ سے داخل ہوئے لیکن پکڑ لیے گئے ۔پہلے مولوی محمد امین لوٹے پھر مولوی ظہور حسین ۔قیدو بند کے مر حلے گزار کر برطانوی سفیر کی مداخلت سے رہا ہوئے اور واپس آگئے ۔
افغانستان میں نعمت اللہ قادیانی کو جولائی ۱۹۲۴ء میں پکڑ ا گیا ۔ا س پر جا سوسی اور ارتداد ثابت ہو گیاتو سنگسار کر دیا گیا ۔فروری ۱۹۲۵ء میں دواور قادیانی ملا عبدالحلیم اورملا نور علی کو اسی جرم میں موت کے گھاٹ اتاراگیا۔ افغانستان اور پاکستان میں تعلقات کی کشیدگی کا ایک سبب ابتداً سر ظفر اللہ خاں تھے جو ان تین قادیانیوں کے قتل پر افغانی سفیر مقیم برطانیہ کو عذاب خدا وندی کی وعید دے چکے اور تب سے افغانستان کے خلاف تھے ۔دوسری وجہ مر زا محمود خود تھے کہ وہ افغانستان کے لیے اور افغانستان ان کے لیے نا قابل قبول تھا ۔افغانستان کا ہر ابتلاء ان کے نزدیک ان کی بد دعا کا مظہر تھا ۔
برطانوی ہندوستان میں بھی مرزائی امت کا شعار تھا کہ ان کے جو ا فر ا دپولیس میں بھرتی ہوتے وہ عموماًسی آئی ڈی میں چلے جاتے یا انگریز انہیں چن چن کے سی آئی ڈی میں لے لیتا جہاں انہیں ہندوئوں ،سکھوں اور مسلمانوں پر کوئی سا ظلم توڑتے ہوئے رتی بھر حیا محسوس نہ ہوتی بلکہ ہر ظلم کو اپنے فرائض کا حصہ سمجھتے ۔پنجاب میں سی آئی ڈی کا محکمہ برطانوی حکومت کے لیے ریڑھ کی ہڈی رہا۔ اس محکمہ کے مرزائی افسروں نے برطانوی استعمار کی جو خدمات انجام دیں وہ کوئی انگریز افسر بھی انجام نہ دے سکتا تھا ۔
حقیقت یہ ہے کہ تقریباًہر اسلامی ملک میں قادیانیوں کے خلاف حکومت اور عوام دونوں سطح پر ذہنی احتساب موجود ہے ،لیکن جہاں قومی آزادی طاقتور ہے اور ان کی آزادی عالمی استعمار کے رخنوں سے محفوظ ہے وہاں قادیانی مشن نہ کبھی تھے نہ اب ہیں ۔مثلاًمصر، افغانستان ، شام ،حجاز ،عراق ،شرق اردن ، انڈونیشیا وغیرہ میں قادیانی مشن نہیں ،ایران ہمارا عزیز ہمسایہ ہے اس کے ساتھ ہمارے روابط یکجائی کے ہیں ،لیکن قادیانی ادھر کا رخ نہیں کرتے کیا وہاں انجام نظر نہیں آتا ہے یا عالمی استعمار کو ضرورت نہیں ؟
ء کی پاکستانی مزاحمت کے بعد با لعموم اور پچھلے تیں سالوں میں بالخصوص قادیانی امت نے اپنے سیاسی ہتھکنڈے تبدیل کر لیے ہیں اور اب عالمی استعمار کی جاسوسی امت کے طور پر افر یشیائی ممالک سے خفیہ معلومات فراہم کر رہے ہیں ۔تل ابیب (حیفا)میں ان کا مشن گردو پیش کی عرب دنیا کے خلاف جاسوسی کا مرکز ہے۔اس باب میں دمشق کے ایک مطبوعہ رسالہ ’’القادیانیۃ ‘‘ سے ان کے سیاسی خط و خال اور استعماری فرائض و مناصب کی نشاندہی ہوتی ہے ۔ اس میں لکھا ہے کہ ’’کسی بھی عرب مسلمان ریاست میں ان کے لیے کے کوئی جگہ نہیں بلکہ ان کے وجودکی بدولت پاکستان کو عربوں میں ہدف بنایا جا تا ہے ‘‘ذیل کا واقعہ رسالہ میں مذکورہے کہ:
“پہلی جنگ عظیم کے وقت انگریزوں نے ولی اللہ زین العابدین ( مرزا محمود احمد کے سالے)کو سلطنت عثمانیہ میں بھیجا ۔وہاںپا نچویں ڈویژن کے کمانڈر جمال پاشا کی معرفت قدس یو نیورسٹی (۱۹۱۷ء) میں دینیات کا لیکچرر ہو گیا ۔لیکن جب انگریزی فوجیں دمشق میں داخل ہوئیں تو یہی ولی اللہ اپنا جا مہ اتا ر کر انگریزی لشکر میں آگیا اور عربوں کو ترکوں سے لڑانے بھڑانے کی مہم کا نچارج رہا ۔عراقی اس سے واقف ہو گئے تو بھاگ کر قادیان آگیا اور ناظر امور عامہ بنا یا گیا ۔”
اب قادیانی امت کی استعماری تکنیک Strategy یہ ہے کہ وہ استعمار کے حسب منشا پاکستان کی ضرب تقسیم میں حصہ لے کر سکھوں کے ساتھ پنجاب کو علیحٰدہ قادیانی ریاست بنانا چاہتی ہے ۔ اس غرض سے عالمی استعمار اس کی پشت پناہی کر رہا اور وہ اس کے لیے مختلف ملکوں میں جاسوسی کے فرائض انجام دے رہی ہے ۔اس کی جاسوسی کا جا ل وسیع ہو گیا ہے۔ اس غرض سے اس نے اسرائیل کے گردو پیش حجاز واردن میں فضائیہ وغیرہ کی تربیت کے لیے نہ صرف قادیانی پائلٹ بھجوائے ہیں بلکہ ان ملکوں میں استعماری کا روبار جاری رکھنے کے لیے ہر سال ڈاکٹر وں ،انجینئروں اور نرسوں کی ایک بڑی کھیپ کی جا رہی ہے ۔ پاکستان میں کوشش کر کے اُن بڑے ہسپتالوں میں میڈیکل سپر نٹنڈنٹ قادیانی لگوائے جا رہے ہیں جہاں ہر سال لڑکیاں بھرتی کی جا تی ہیں ،چنانچہ لا ہور کے میو ہسپتال کا میڈیکل سپر نٹنڈنٹ جی این جنجوعہ قادیانی مقرر ہوا ہے ۔واضح رہے کہ میو ہسپتال لاہور پشاور سے لے کر حیدر آباد تک نرسوں کا سب سے بڑا تربیتی مرکز ہے ۔ اس پس منظر میں جنجوعہ کے لیے پوری قادیانی مشینری نے زور دے کر یہ جگہ حاصل کی ہے ۔
اُدھر یہ بات ڈھکی چھپی نہیں کہ مرزائی پاکستان بننے پر خوش نہ تھے اور نہ پاکستان بننے کے حق میں تھے ۔مرزا محمود نے پاکستان بننے سے تین ماہ پہلے خطبہ دیا تھا ملا خطہ ہوا لفضل ۱۶ مئی ۱۹۴۷ء ۔
’’ہندوستان کی تقسیم پر اگر ہم رضامند ہوئے ہیں تو خوشی سے نہیں بلکہ مجبوری سے اور پھر یہ کوشش کریں گے کہ کسی نہ کسی طرح پھر متحد ہوجائے ۔‘‘
۵اگست ۱۹۴۷ء کے الفضل میں خلیفہ ثانی کی ایک دوسری تقریر درج ہے،فرماتے ہیں:
’’بہر حال ہم چاہتے ہیں کہ اکھنڈ ہندوستان بنے اور ساری قومیں باہم شیر و شکر ہوکر رہیں ۔‘‘
مرزاصاحب نے قادیان میں رہنے کے بہتیرے جتن کیے ۔کوشش کی کہ پا پا ئے روم کے مقدس شہر وٹیگین کا مقا م قادیان کو مل جائے لیکن جب کوئی بیل منڈھے نہ چڑھی تو ایک انگریز کرنل کی رپورٹ پر حوا س باختہ ہوکر کیپٹن عطاء اللہ کی معیت میں بھاگ کر لاہور آگئے ۔میجر جنرل نذیر احمد آپ کے ہمزلف تھے ان کے ساتھ جیپ میں سوار ہوکر نکلنے کا پروگرام تھا ،لیکن سکھوں کی مار دھاڑ کے خوف سے قبل از وقت نکل آئے اور چوری چھپے جان بچائی ۔یہاں پہنچ کر مرزا صاحب نے قادیان میں مرا جعت کے رویاء اور خواب بیان کرنا شروع کیے اور پروگرام بنایا کہ :

۱۔ تقسیم کی مخالف قوموں سے گٹھ جوڑ کر کے قادیان کسی نہ کسی طرح حاصل کیا جائے ۔
۲۔ کشمیر کے کسی حصے پر اقتدار حاصل کیا جائے ۔
۳۔ پاکستان کے کسی علاقے کو قادیانی صوبہ میں تبدیل کیا جائے ۔
بظاہر یہ تین مختلف اور شاید ایک نازک حد تک متخالف ’’محاذ‘‘تھے لیکن اصلاًحصول اقتدار کا مربوط سلسلہ تھا جو مرزا محمود احمد کے نہاں خانہ دماغ میں پرورش پا رہا تھا ۔
جسٹس منیر نے ۱۹۵۳ء کے واقعات سے متعلق مسلمانوں سے مرزائیوں کی نزاع پر جو رپورٹ لکھی ہے اس کے صفحہ ۱۹۶پر درج ہے کہ:
“۱۹۴۵ء سے لے کر ۱۹۴۷ء کے آغاز تک احمدیوں کی بعض تحریروں سے منکشف ہوتا ہے کہ وہ برطا نیہ کا جا نشین بننے کے خواب دیکھ رہے تھے وہ تو ایک ہندو دنیاوی حکومت یعنی ہندوستان کو اپنے لیے پسند کرتے تھے اور نہ پاکستان کو منتخب کر سکتے تھے۔ ”
الفضل ۲۵دسمبر ۱۹۳۲ء ملا حظہ ہو ،خلیفہ صاحب فرماتے ہیں
“ملکی سیاست میںخلیفہ وقت سے بہتر اور کوئی راہنمائی نہیں کر سکتا کیو نکہ اللہ تعالیٰ کی تا ئید شا مل ہو تی ہے۔ ”
۴ جون ۱۹۴۰ء کے الفضل میں :
“نہیں معلوم کب خدا کی طرف سے ہمیں دنیا کا چارج سپر د کیا جاتا ہے ہمیں اپنی طرف سے تیار رہنا چاہیے کہ دنیا کو سنبھال سکیں۔ ”
یہ اس وقت مرزا ئی امت کے خیالات تھے جب ہٹلر نے برطانیہ کو ہلا ڈالا تھا اور مرزائی و سکھ دونوںپنجاب پر قبضہ کرنے کی تیا ری میں تھے ۔اس ضمن میں ما سٹر تارا سنگھ کا مضمون ہفتہ وار کالی سے مختلف جرائد میں نقل ہو چکا ہے ماسٹر جی نے لکھا تھا کہ برطانیہ نے ہندوستان چھوڑ ا تو سکھ ریاستوں با لخصوص مہا راجہ پٹیا لہ کی مدد سے پنجاب میں ہم نے اتنی تیاری کر لی ہے کہ اس کے جانشین ہوسکیں اور سکھوں کا صوبہ سکھوں کی عملداری میں ہو ۔
اس سے پہلے ۱۴فروری ۱۹۲۲ء کے الفضل میں خلیفہ صاحب کی تقریر ہے:
“ہم احمدی حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں۔”
مزید ملاخطہ ہو:
“اُس وقت تک کہ تمہا ری با دشا ہت قائم نہ ہوجائے تمہارے راستے سے یہ کا نٹے ہر گز دور نہیں ہوسکتے۔”الفضل ۸جولائی ۱۹۳۵ء
مرزائیوں نے اپنی جما عت کے ۸۳ برس میں مسلمانوں کے کسی ابتلاء ،کسی تحریک ،کسی اُفتا د اور کسی مصیبت میں کبھی حصہ نہیں لیا ۔ہمیشہ مسلمانوں سے الگ تھلگ اور انگریز وں کی مرضی کے تابع رہے لیکن ریاست کشمیر کے مسلمانوں کی ہمدردی کے نام پر انہوں نے جولائی ۱۹۳۱ء میں آل انڈیا کشمیر کمیٹی کا کھڑاگ رچایا اور آج تک صرف کشمیرہی کا ذکر چھڑتے ہیں ۔کیا مسلمانوں کے مصائب کشمیر کے سوا اور کسی خطہ میں نہ تھے ۔کیا صرف کشمیر کے مسلمان ہی مسلمانان عالم میں ہمدردی کے مستحق تھے اور کیا ریاست کشمیر کی آزادی ہی عالم اسلام کی ویرا نیوں کا مسئلہ اوّل ہے ؟ اگر قادیانی کشمیر کے معاملہ میں اسلام اور مسلمانوں کی خاطر مخلص ہوتے تو اس کا اعتراف نہ کرنا بخل ہوتا بلکہ شقاوت کے مصداق ۔لیکن معاملہ دوسرا تھا ۔مرزائی کشمیری مسلمانوں کی سادہ فطرت سے واقف تھے کہ وہ مذہبی سٹہ بازوں کا شکار ہوجا تے ہیں ۔ادھر قادیان اور جموں متصل علاقے تھے اُدھر مرزائی جس قادیاں کا خواب دیکھتے تھے اس کی تعبیر کے لیے جموں و کشمیر حسب حال تھے ۔
پاکستان نے اپنی آزادی کے تیسرے مہینے اکتوبر ۱۹۴۷ء میں کشمیر کا مطالبہ کیا تو اس جنگ میں قادیانی امت فی الفور کود پڑی اس نے فر قان بٹالین کے نام سے ایک پلاٹون تیار کیاجو سیالکوٹ کے نزدیک جموں کے محاذ پر واقع گائوں معراجکے میں متعین کی گئی ۔اس نے وہاں کیا خدمات انجام دیں ؟ اس کے تذکرہ وافشاء کا محل نہیں ،لیکن اس وقت پاکستان کے کمانڈر انچیف جنرل سر ڈگلس گریسی تھے جن کے متعلق معلوم ہوچکا ہے کہ وہ پاکستان کی فوج کو کشمیر میں استعمال کرنے کے خلاف تھے اور نہ شخصی طور پر کشمیر کی لڑائی کے حق میں تھے بلکہ ان کی معرفت بعض معلومات ہندوستان کے کمانڈر انچیف جنرل سر آکن لیک پہنچتی گئیں ۔قائد اعظم اس وقت سرطان کے مرض میں مبتلا تھے جب انہیں معلوم ہوا تو ان کا مرض شدید ہوگیا ۔کسی کمانڈر انچیف نے کسی آزاد ادارے کی ایسی بٹالین پر کبھی صاد نہیں کیا جیساکہ فرقان بٹالین تھی ،فرقان بٹالین کو شرف بخشا گیا کہ جنرل گر یسی نے بطور کمانڈر انچیف تحسین و ستائش کا خط و پیغام لکھا جو تا ریخ احمد یت جلد ششم مو لفہ دوست محمد شاہد کے صفحہ ۶۷۴پر مو جود ہے ۔بات معمولی ہے لیکن عجیب ہے کہ کشمیر کے محاذ وں کی جنگ میں قادیان سے ملحق سرحد ات کی کمان ہمیشہ مرزائی جرنیلوں کے ہاتھ میں رہی ہے چونکہ یہ ایک فوجی عمل ہے لہٰذا اسکا ذکر مناسب نہیں ،لیکن سوال ہے کہ فرقان بٹالین ہو یا اس کے بعد ۱۹۶۵ء کی جنگ جو کشمیر سے شروع کی گئی کہ وہاں چھمب اور جو ڑیاں کا محاذ پٹھانکوٹ اور قادیان کی طرف تھا ۔ابتدا ًان محاذوں کی کمان جنرل اختر ملک اور بر یگیڈیر عبد العلی ملک کے ہاتھ میں تھی جو سگے بھائی ہونے کے علاوہ قادیانی العقیدہ تھے ۔جنرل اختر ملک ترکی میں وفات پا گئے ۔اُن کی نعش وہاں سے ربوہ لائی گئی جہاں بہشتی مقبرے سے با ہر ہمیشہ کی نیند سورہے ہیں ۔پنجاب میں پانچویں اور چھٹی جماعت کی تاریخ جغرافیہ کے نصاب میں ۱۹۶۵ء کی جنگ کا ہیر و جنرل اختر ملک اور بریگیڈیر عبد العلی کو بتایا گیا اور اول الذکر کی سہ رنگی تصویر شامل کی گئی ہے ۔
ایک دوسری تصویر جنرل ابرار حسین کی بھی ہے ،لیکن ۱۹۶۵ء کی جنگ کو اس طرح محدود کرنا اور صرف جنرل اختر حسین ملک یا بریگیڈیر عبد العلی کا ذکر کرنامرزائی امت کاپنجاب میں نئی پود کو ذہناًاپنی طرف منتقل کرنے کا ہتھکنڈاہے عزیز بھٹی وغیرہ کو نظر انداز کر کے اور اس وقت کے آتش بجا نوں کے سر سے گزر کے جنرل اختر ملک کو قومی ہیرو بنانا اور پڑھانا قادیانی سیاست کی شو خی ہے جو حصول اقتدار کی آئندہ کوششوں میں رنگ و روغن کا کا م دے گی ۔
بات سے بات نکلتی ہے ۔جنرل اختر ملک کے تذکرے سے اس ضمن کی دو باتیں حافظہ میں اور تازہ ہوگئیں ۔
۱- نواب کالا باغ نے ۱۹۶۵ء کی جنگ کے واقعات پر گفتگو کرتے ہوئے راقم سے بیان کیاکہ ۱۹۶۵ء کی جنگ میں اللہ تعالیٰ نے ہماری محافظت کی ورنہ صورت حال کے پامال ہونے کا احتمال تھا ۔نواب صاحب نے فرمایا ،مرزائی پاکستان میں حصول اقتدار سے مایوس ہوکر قادیان پہنچنے کے لیے مضطرب ہیں ۔وہ بھارت سے مل کر یا بھارت سے لڑ کر ہر صورت میں قادیان چاہتے ہیں اور اس غرض سے پاکستان کو با زی پر لگانے سے بھی نہیں چوکتے ،ایک دن میرے ہاں اختر حسین ملک آئے اور میرے ملٹر ی سکیرٹری کرنل محمد شریف سے کہا کہ مجھ سے ملنا چاہتے ہیں۔میں نے پس وپیش کی اور اپنے سیکرٹری سے کہا کہ میں نے جنرل ملک سے اگر ملاقات کی تو صدر ایوب جو مجھ سے پہلے ہی بد ظن ہو چکے ہیں اور بد ظن ہونگے اور یہ حسن اتفاق ہے کہ میں بھی اعوان ہوں جنرل ملک بھی اعوان ہے اور تم (ملٹری سکیر ٹری ) بھی اعوان ہو۔ صدر ایوب کے کان میں الطاف حسین(ڈان )نے بات ڈال رکھی ہے کہ اُس سے کسی امریکن نے کہا ہے کہ نواب کالا باغ ایوب خاں کے خلاف اندر خانہ خود صدر بننے کی سازش کر رہا ہے ۔ اس وقت تو جنرل ملک لوٹ گئے لیکن چند دنوں بعد نتھیا گلی میں ملاقات کا مو قع پیدا کر لیا ۔کہنے لگے میں صدر ایو ب کو آمادہ کروں کہ یہ وقت کشمیرپر چڑھائی کرنے کے لیے بہترین ہے ۔یقین ہے کہ ہم کشمیر حاصل کر پائیں گے مجھے حیرت ہوئی کہ بیٹھے بٹھائے جنرل کو یہ کیا سوجھی ؟بہر حال میں نے عذر کر دیا کہ میں نہ تو فو جی ایکسپرٹ ہوں نہ مجھے جنگ کے مبادیا ت کا علم ہے ۔آپ خود ان سے تذکرہ کریں ۔انہوں نے کہا کہ صدر نہیں مانتا ۔وہ کہتا ہے کہ اس لڑائی کے جلد بعد بھا رت براہ راست پاکستان کی بین الاقوامی سرحدوں پر حملہ کر دے گا ۔
میں نے کہا ،صدرمجھ سے پہلے ہی بد گمان ہے ۔وہ لازماًخیال کرے گا کہ اعوان اس کے خلاف کوئی سازش کر رہے ہیں ۔جنرل اختر مجھ سے جواب پاکر چلے گئے ۔اس اثنا میں سی آئی ڈی کی معرفت مجھے ایک دستی اشتہار ملا جو آزاد کشمیر میں کثرت سے تقسیم کیا گیا تھا۔اس میں لکھا تھا کہ’’ ریاست جموں کشمیر انشاء اللہ آزاد ہوگی اور اس کی فتح ونصرت احمد یت کے ہا تھوں ہوگی۔‘‘(پیش گوئی مصلح موعود)
اوریہ میرے لیے نا قابل فہم نہ تھا کہ جنرل کہ جنرل اختر اس پیش گوئی کو سچا بنانے کے لیے دوڑدھوپ کر رہے تھے ۔
راقم نے نواب کالا باغ کی یہ گفتگومحترم مجید نظامی ایڈٹیرنوائے وقت کو بیان کی تو انہوں نے تائید کی کہ ان سے بھی نواب صاحب یہی روایت کر چکے ہیں ۔
۲۔ ڈاکٹرجاوید اقبال سے ذکر آیا تو حیران ہوئے فرمایا کی اس جولائی میں ظفر اللہ خاں نے مجھے امریکہ میں کہا تھا کہ میں صدر ایوب کو پیغام دوں گا کہ وقت کشمیر پر چڑھائی کے لیے موزوں ہے ، پاکستانی فوج ضرور کامیاب ہوگی جہاں تک ہندوستان کے ہاتھوں بین الاقوامی سرحد کے آلودہ ہونے کا تعلق ہے ایسی کوئی چیز نہ ہوگی ۔میں نے صدر ایوب سے ذکر کیا تو انہوں نے فرمایا مجھ سے کہہ دیا اور کسی سے نہ کہنا ۔
صدر ایوب کو سر ظفر اللہ خاں نے پیغام دے کر اور جنرل اختر ملک نے خود حاضر ہوکر علاوہ دوسرے زعماء کے یقین دلایا تھا کہ کشمیر پر حملہ کرنے سے بھارت اور پاکستان میںبراہ راست جنگ نہ ہوگی ۔لیکن پاکستانی فوجیں جب کشمیر کی طرف بڑھنے لگیں گی تو پاکستان بین الاقواقوامی سرحدیں ایکا ایکی بھارتی فوج کے حملہ کا شکار ہوگئیں ۔واقعہ یہ ہے کہ پاکستان کو ہندوستان کے تابع کرنے اور اس کی جغرافیائی ہئیت کو نئی صورت دینے کے لیے جو عالمی استعمار کا منصوبہ تھا ،اس کو پروان چڑھانے کے لیے پاکستان کے بعض پراسرار لیکن مخفی و معلوم ہاتھ بھی تھے ۔قدرت نے استعماری منصوبہ خاک میں ملا دیا ۔ منصو بہ یہ تھا کہ مغربی پاکستان میں پنجاب کو با لواسطہ یا بلاواسطہ شکست ہو تو پاکستان کا عسکری بازو ٹوٹ جائے گا اور مشرقی پاکستان نتیجۃً الگ ہو جائے گا ۔پنجاب کی پسپائی کے بعد سرحد ،و بلوچستان اور سندھ بلقان ریاستوں یا عرب ریاستوں کی طرح چھوٹی چھوٹی ریاستیں بن جائیں گی ۔
کشمیر اور احمدیت کے بارے میں اس سے پہلے یہ بات سطور بالا میں رہ گئی کہ قادیانی امت نے تحریک کشمیر (قبل آزاد ی )اور جنگ کشمیر (بعد از آزادی ) میں صرف اس لیے حصہ لیا کہ مرزابشیر الدین محمود جس قادیانی ریاست کا خوب دیکھتے تھے ان کی نگاہ میں کشمیر ہر لحاظ سے موزوں تھا ۔
جماعت احمدیہ کی کشمیر سے دلچسپی کا سبب دوست محمد شاہد نے تاریخ احمدیت جلد ششم صفحہ۳۴۵تا۴۷۹میں مرزا محمود کی روایت سے لکھا ہے کہ :

۱۔ وہاں تقریباًاسی ہزار احمدی ہیں ۔
۲۔وہاں مسیح اول اور مسیح ثانی (غلام احمد)کے پیروئوں کی بڑی جما عت آباد ہے ۔
۳۔ جس ملک میں دو مسیحیوں کا دخل ہو اس ملک کی فرما نروائی کا حق احمدیو ں کو پہنچتا ہے ۔
۴۔ مہا راجہ رنجیت سنگھ نے نواب امام الدین کو گورنر بنا کر کشمیر بھیجا تھا تو ان کے ساتھ میرزا غلام احمد کے والد بطور مدد گا ر گئے تھے ۔
۴۔ حکیم نور الدین خلیفہ اول مرزا محمود کے استاد اور خسر شاہی حکیم کے طور پر کشمیر میں ملازم رہے تھے ۔
ان نکات ہی کو ملحوظ رکھا جائے تو ظاہر ہے کہ قادیانی امت کی کشمیر سے ہمدردی کسی عام انسانی مسئلہ یا عام مسلمانوں کی ہمدردی کے جذبہ سے نہیں تھی نہ ہے بلکہ وہ اپنے شخصی تعلق اور حربی مفاد کے لیے پورے پاکستان اور تمام مسلمانوں کو استعمال کرتے رہے ہیں ۔
بلوچستان کو احمدی ریاست کا خواب گندہ ہو گیا ۔(اس کے لیے ہم شاہ ایران کے بھی شکر گزار ہیں )ادھر کشمیر سے متعلق ۱۹۴۸ء و۱۹۶۵ء کی دونوںمہمیں بے نتیجہ رہیں ۔ادھر ۱۹۶۵ء کے بعد بر عظیم سے متعلق عالمی استعما ر نے کا نٹابدلا ۔قادیانی امت کا اس کے ساتھ بدلنا ایسا ہی تھا جیسے انجن مڑتے ہی گا ڑی مڑ جاتی ہے اب پاکستان کو ملیا میٹ کرنے کی استعماری کوششوں میں سے ایک الگ کو شش یہ تھی کہ :
۱-مشرقی پاکستان کو الگ کیا جائے ۔قادیانی عقلا نے وہ سب کچھ کیا جو اس کے لیے ضروری تھا ۔انہوں نے مشرقی پاکستان کے لیے شکایات کو جنم دیا پھر پروان چڑھایا ۔ایم ایم احمد نے حکومت پاکستان کے فنانس سکیرٹری مالی مشیر اور منصوبہ بندی کمیشن کے ڈپٹی چیئرمین کی حیثیت سے بنگالیوں کو اتنا بے بس اور بیزار کردیاکہ وہ علیٰحدگی کی تحر یک میں ڈھل گئے ۔مشرقی پاکستان کے مصیبت زدگان کو سرکاری امداد سے محروم رکھا گیا اور اس کے مسئول ایم ایم احمد تھے ۔

۲-جب تک مشرقی پاکستان علیحٰدہ نہ ہو ،قادیانیوں کے لیے پاکستان میں اقتدار کا سوال خارج از بحث تھا ۔کیو نکہ اکثریت مشرقی پاکستان کی تھی اور شیخ مجیب الرحمن قادیانی امت کی ان حرکات کو بھا نپ کر ان سے با خبر ہو گئے تھے ۔وہ ایم ایم احمد کی حرکات پر پبلک میں بیان دے چکے تھے اور ان کی فوری علیحٰدگی کے خواہاں تھے ۔اس بیان کے فوراًبعدچودھری ظفر اللہ خان ان سے ملنے ڈھا کہ گئے ۔ دوسرے یا تیسرے دن تخلیہ میں ملاقات ہوئی اور آخر وہی ہوا جومرزائی امت کے ظفراللہ خان یا ایم ایم احمد سے ٹکرائو کا نتیجہ ہو سکتا تھا کہ ایم ایم احمد کو علیحٰدہ کرنے سے پہلے مجیب الرحمن پاکستان سے ہمیشہ کے لیے علیحٰدہ ہو گئے ۔

۳-اب مرزائی تمام تجربوں کو حسب مراد پا کر پا کستان میں عالمی استعمار کا آخری ناٹک کھیل رہے ہیں ۔انہوں نے امریکہ کے یہودیون کی طرح ملک کی مالیات (بینکنگ )،انشورنس اور انڈسٹری ) میں اس قسم کا اقتدار حاصل کر لیا ہے کہ انہیں ان کے پس منظر ،پیش منظر اور تہہ منظر سے خارج نہیں کیا جا سکتا ۔اب ان کی اقتدار میں یہ چیزیں معاون ہو سکتی ہیں یہ کہنا جرم نہ ہو گا کہ پاکستانی فضائیہ اپنے چیف سے لے کر آئندہ جانشینوں کی ایک کڑی تک ان کے ہا تھ میں ہے اسی طرح بری فوج کے دونوں کور کما نڈر (جنرل عبدالعلی اور جنرل عبدالحمید )ان کے ہیں ان کے ساتھ ایک ڈار بندھی ہوئی ہے ۔
۴- ملک کی بعض اہم آسامیاں قادیانی لے رہے ہیں ۔مثلاًپنجاب میں ٹیکسٹ بورڈ کا چیئرمین غالب احمد قادیانی ہے ۔پنجاب اور بہاولپور کے علاقہ کی انشورنس کا رپوریشن کاجنرل منیجر جنجوعہ قادیانی ہے ۔لاہور میو ہسپتال کا میڈیکل سپر نٹنڈنٹ قادیانی ہے ۔غرض ایسے کئی ادارے قادیانی امت کے ہا تھ میں ہیں جہاں اس کے افراد کی بڑی سے بڑی اکثریت معاشی طور پر پرورش پا سکتی ہے اور سیاسی طو ر پر اقتدار کی راہیں ہموار کر سکتی ہے ۔

۵-ابھی تک پریس قادیانی امت کے ہاتھ میں نہیں آسکا ،لیکن وزارت اطلاعات و نشریات کی معرفت پریس کو مہر بلب کر دیا گیا ہے ۔۔۔۔۔اور ملک کے بیشتر ورکنگ جرنلسٹوں میںکرپشن کی نیو رکھ دی گئی ہے جس کی بدولت قادیانیت کے پیچ وخم کا مسئلہ خارج ازاحتساب ہو چکا ہے ۔

۶-ملک کے بعض اہل قلم اور اہل صحافت کو بالواسطہ و بلاواسطہ مختلف شکلوںمیں معاوضہ دے کر اس قسم کے مضمون لکھوائے جا رہے ہیں جس سے قادیانی امت کے مخالفین ضعیف ہوتے جائیں اور اس انتشار و افتراق کو ہوا ملتی رہے جو ان کے آئندہ اقتدارکی ضروری اساس ہے ۔
۷-سرحدوبلو چستان کی علیحٰدگی سے متعلق بالکل انہی خطوط پر قادیانی امت اقدام و کلام کا انبار لگا رہی ہے جن خطوط پر شیخ مجیب الرحمن کو رگید ا جا رہا تھا ۔مرزائی امت بظاہر پیپلزپارٹی کے ساتھ ہے لیکن اس کے مختلف نوجوان مختلف پارٹیوں میں حسب ہدایت شامل ہیں ۔پنجاب نیشنل عوامی پارٹی میں ایک ایسا نوجوان شریک ہے جس کا بھائی بڑے دنوں سے کراچی کا ڈپٹی کمشنر ہے اور باپ مرزا غلام احمد کا صحابی ایک زمانہ میں پکک قانونی مشیر تھا۔قادیانی امت کا طرز عمل یہ ہے کہ مذمت کے روپ میں سرحد و بلوچستان کی سیاسی فضاء کو اتنا مسموم کردیا جائے کہ علیحٰدگی کا مطالبہ حقیقت بن جائے جب عالمی استعمار کی خواہش کے مطابق پاکستان جو کبھی مغربی پاکستان کئی ریاستوں مثلاً پختونستان ،بلوچستان اور سندھو دیش وغیرہ میں تقسیم ہو تو پنجاب میں حکمران طاقت ،یا سکھوں کے ساتھ مشترکہ طاقت کی سر براہی ان کے ہاتھ میں ہو۔
مرزائی سیاست کا نقشہ یہ ہے کہ عالمی استعما ر اس پا کستان کو ضرب و تقسیم سے تین چار ریاستوں میں بانٹنے کا ارادہ کر چکا ہے ۔پختونستان بنے گا ،بلوچستان بنے گا ،سندھو دیش بنے گا ،ان کے اضلاع میں تھوڑا بہت ردو بدل ہو گا۔ہو سکتا ہے سندھ کا کچھ علاقہ بھارتی راجستھان کو چلا جائے ۔ پختونستان میں پنجاب کے ایک دو اضلاع آجائیں ۔بلوچستان سندھ کے ایک دو اضلاع لے جائے اور پنجاب میں ڈیرہ غازی خان کے ضلع پر اس کی نگاہ ہو ۔لیکن جتنی جلدی یہ ہو قادیانی اپنے لیے اتنا ہی مفید سمجھتے ہیں ۔قادیانی امت کی اس مہرہ بازی کا حاصل کلام یہ ہے کہ اپنے ہلقانی مقدر کے بعد پاکستان ختم ہو جائے گا تو سکھ،استعماری شہ اور بھارتی تعاون سے پنجاب پر اپنے اس استحقاق کا دعویٰ کریں گے کہ وہ ان کے گورئوں کی نگری ہونے کے با عث ان کا ہے ۔ جس طرح یہود نے فلسطین کو اپنے پیغمبروں کے مولد ومسکن و مرقد ہونے کی بنا پر حاصل کیا اور اسرا ئیل بنا ڈالا اسی طرح پنجاب سکھوں کا ہو گا بعض معلوم وجوہ کے باعث پنجاب اس وقت پختونستان ،سندھو دیش اور بلوچستان کی ناراضی میں گھراہوگا ،مرزائی امت گورئوں کی نگری کے طالبین سے معانقہ کرکے اپنے’’ مدینۃ النبی‘‘ قادیان کی مراجعت پر خوشی ہوگی تب عالمی استعمار کی مداخلت سے ایک نیا پنجاب پیدا ہوگا جو سکھ احمدی ریاست ہوگا اور جس کا پاکستانی وجود ختم ہو جائے گا ۔
پا کستان کا اصل خطرہ یہ ہے اور پنجاب اس خوف ناک سا نحہ کی زد میں ہے ،نہ جانے حزب اقتدار اور حزب اختلاف اس بارے میں کیوں نہیں غور کرتیں ،اس سیاسی مسئلہ کا اس وقت تعاقب نہ کیا گیا اور ایک پولٹیکل خطرہ کے طور پر اس کا محاسبہ نہ کیا گیا تو کیا پاکستان کی آنکھ اس وقت کھلے گی جب طوفان سر سے گزر چکا ہوگا اور پاکستان کی تاریخ استعماری انقلاب کے ہاتھوں لٹ چکی ہو گی تب مورخ یہ لکھیں گے کہ ان علاقوں میں ایک ایسی قوم رہتی ہے جس نے اپنے مسلمان ہونے کی بنیاد کے طور پر براعظم ہندوستان سے کٹ کے ایک علیحٰدہ ملک پاکستان بنوایا تھا لیکن اس پر تیسری یا چوتھی دہائی بھی نہ گزری تھی کہ اپنی مجرمانہ غفلتوں اور احمقانہ سر کشیوں سے اس ملک کو خو د مٹا ڈالا اور اب وہ ملک اور قوم ماضی کی ایک طربناک یاد کا المناک تتمہ ہیں۔
٭اگر حکومت کے لیے یہ گروہ مفید ہے تو وہ اس کی خدمات کا صلہ دینے کی پوری طرح مجاز ہے ۔لیکن اس جماعت کے لیے اسے نظر انداز کرنا مشکل ہے جس کا اجتماعی وجود اس کے باعث خطرہ میں ہے ۔
٭مسیح موعود کی اصطلاح اسلامی نہیں اجنبی ہے دور اول کے تا ریخی اور مذہبی ادب میں یہ اصطلاح کہیں نہیں ملتی ۔

٭بروز ،حلول ،ظل وغیرہ کی اصطلاحیں اسلامی ایران میں مود بدانہ اثر کے تحت ملحدانہ تحریکوں کی پیدا وار ہیں ان کی واضعین نے اپنے ملحدانہ خیالات کو چھپانے کے لیے انہیں وضع کیا تھا ۔
٭مرزاغلام احمد اپنے عقائد کی اساس پر کوئی علیحٰدہ امت تیار نہیں کر سکتے تھے انہوں نے محمدعربیﷺ کی امت میں نقب لگا کر قادیانی امت پیدا کی جو کھلم کھلا الحاد کی اساس پر قائم ہے ۔
(اقبالؔؒ)

2 تبصرے “عجمی اسرائیل از شورش کاشمیری

  1. میری رائے یہ ہے۔ کہ ایسے شخصیات کوجو ملک سے باہر کسی سلسے میں گیا ہو خواہ ایک گھنٹہ کیو نہ ہو
    اسکو کسی قسم کا سرکاری عہدے پر نہ رکھا جائے یا ایسے لوگوں کو گریڈ 15 سے آگے نہ لے جایا جائے

    ایسے افراد کو سیاسی اور اعلیٰ عہدے پر فائز کیا جائے جو پرائمری تعلیم سے اعلٰی تعلیم تک پاکستان کے گورنمٹ اداروں سے حاصل کرچکا ہو

    اور قادیئاونوں کو پانسی کا حکم چلادیا جائے

  2. جہاں سے آپ نےشیئر کیا ہے وہاں سے پرانے ایڈیشن میں صفحہ نمبر 116 سے آگے ہیں. اب سوال یہ ہے کہ پچھلے 115 صفحات کہاں سے ملینگے؟

اپنا تبصرہ بھیجیں