“آدھا چہرہ” محی الدین نواب کا ایک شاہکار معاشرتی ناول
آدھا چہرہ محی الدین نواب صاحب کا ایک بہترین معاشرتی ناول ہے۔ زندگی کے نشیب و فراز کا آئینہ، انسانوں کے ظاہر و باطن کی عکاسی ۔ معاشرے کے جراح محی الدین نواب کے نشتر قلم سے ایک نوکیلی ، کٹیلی اور آب دار کہانی۔
محی الدین نواب ایک نام ہے، ایک پہچان ہے۔ اچھی کہانیوں کے پہچان، بلندپایہ تحریروں کی شناخت۔ نواب کے بارے میں یہ بات بالکل ٹھیک کہی گئی ہے کہ اس کی کہانیاں آنکھوں سے نہیں ، دل کی گہرائیوں سے پڑھی جاتی ہیں۔ حقیقتاً وہ الفاظ کا جادوگر ہے مگر ایسا بھی نہیں ہے کہ لفظوں کی جادوگری میں وہ نفسِ مضمون کو فراموش کردیتا ہو۔ اگر دیکھا جائے تو اس کی ایک کہانی میں کئی کئی داستانیں بکھری نظری آتی ہیں۔ نواب کا قلم بلاشبہ معاشرے کے جسم پر ایک تیز نشتر کی حیثیت رکھتا ہے، جو اپنے عملِ جراحی سے انہیں کھولتا چلا جاتا ہے۔ پھر ایک وجود پر کئی چہرے دکھائی دیتے ہیں۔ کالے چہرے، آدھے چہرے ! نواب کو اگر معاشرے کا تلخ ترجمان کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ اس کا مشاہدہ وسیع ہے اور اس کے قلم میں بے پناہ سچائی ہے۔ معاشرے کا کوئی پہلو اس کی آنکھ سے اوجھل نہیں ہے۔ لکھنے کے معاملے میں وہ بڑی گہری نظر رکھتا تھا۔ اور ایک عام سی کہانی میں بھی بہت بڑی بات کہہ جاتا تھا۔
نواب’ بہار سے بنگلہ دیش (سابق مشرقی پاکستان) پھر لاہور اور لاہور سے کراچی تک انتہائی ہنگامہ خیز حالات سے گزرا تھا۔ اس سفر میں اس نے بے شمار صعوبتیں برداشت کیں’ بڑی کٹھن راہوں کو طے کیا۔ تاہم اس کے پائے استقلال میں کبھی لغزش نہیں آئی۔ نواب نے اپنی آنکھوں سے مشرقی پاکستان کا سہاگ اجڑتے دیکھاہے۔ وہ آگ و خون کے دریا سے گزر کر مغربی پاکستان پہنچا ۔
بعض حضرات کا خیال ہے کہ نواب صرف معاشرتی کہانیوں کا مصنف ہے ۔ اگر اس اعتراض کو درست تسلیم کردیا جائے تو اس میں بھی نواب کی ستائش کا پہلو موجود ہے۔ ظاہر ہے معاشرہ انسانوں سے تخلیق پاتا ہے اور کہانیاں انسانی اقدار سے جنم لیتی ہیں ، یہی وجہ ہے کہ نواب کی کہانیاں سچی، صاف اور دوٹوک ہوتی ہیں۔ جو کہانیاں فطرت سے ہٹ کر لکھی جاتی ہیں’ ان میں تصنع اور غیر حقیقی پن صاف محسوس ہوتاہے’ جبکہ نواب اس دنیا اور اس دنیا میں بسنے والوں کی کہانیاں تخلیق کرتا تھا۔ معاشرے کو تہ در تہ کھولتا چلا جاتا ہے۔ لیکن نواب نے ہر موضوع پر طبع آزمانی کی ہے۔ اس نے تاریخی کہانیاں بھی لکھی ہیں اور جرم و سزا کے موضوع کو بھی اپنایا ہے۔
سسپنس ڈائجسٹ کی مشہور سلسلے وار کہانی “دیوتا” کی مثال روزِ روشن کی طرح موجود ہے۔ جس نے نہ صرف پڑھنے والوں میں بے پناہ مقبولیت حاصل کی بلکہ نواب کی اس تخلیق کو یہ انفرادیت بھی حاصل ہے کہ وہ دنیا کی طویل ترین کہانی کہلائی جا سکتی ہے۔ علاوہ ازین ” دیوتا” نے کتابی شکل میں شائع ہوکر جو مقبولیت حاصل کی ہے ‘ وہ پاکستان میں چھپنے اور بکنے والی کتابوں کے ضمن میں ایک ریکارڈ ہے۔
بڑھتی عمر کے ساتھ نواب کی تحریر میں پختگی پیدا ہوئی، لیکن اس کی تحریروں میں جھنجلاہٹ ، مایوسی اور تھکاوٹ کا شائبہ تک نہیں ہوتا۔ وہ قاری کو تحریر کے سحر میں جکڑ کر اس تیزی سے آگے بڑھتا ہے کہ بسا اوقات پڑھنے والا بھی اس کا ساتھ نہیں دے پاتا، جس کے نتیجے میں وہ کوئی صفحہ یا پیرا گراف دوبارہ پڑھنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ اس ضمن میں نواب کی زیرِ نظر تصنیف “آدھا چہرہ” کو پیش کیا جاسکتا ہے’ جو اس کی تحریر کی پختگی اور پلاٹ کی ندرت کے اعتبار سے ایک شاہکار ہے۔
آدھا چہرہ نواب کی ضخیم ترین تصنیف ہے’ بلاشبہ یہ نواب کے ان شہ پاروں میں سے ایک ہے ‘ جس پر وہ خود بھی بجا طور پر فخر کرسکتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اسے اردو کے ناولوں میں ایک ممتاز مقام حاصل ہونا چاہیئے۔ ہر چند کہ یہ کوئی علامتی کہانی نہیں ہے، ورنہ اب عام قاری کا مزاج بدل گیا ہے ‘ سو تحریر کی نہج اور زاویے میں بھی نمایاں تبدیلی آئی ہے۔ آج کا دور حقیقت پسندی کا ہے اور “آدھا چہرہ” میں یہ فن اپنے عروج پر نظر آتاہے۔
“آدھاچہرہ” ایک ایسی کہانی ہے جو عام آدمی کے درمیان گردش کرتی ہوئی معاشرے کے کئی حساس پہلوؤں کو اجاگر کرتی ہے۔ درحقیقت آج کا مصروف اور تھکا ہوا قاری بوجھل فلسفوں اور الجھی ہوئی تحریروں سے وابستگی نہیں رکھتا۔ وہ سیدھے سادے ‘ عام فہم اور اثرپذیر زبان میں اپنی دنیا اور اپنے ماحول کے بارے میں پڑھنا پسند کرتا ہے۔ “آدھا چہرہ” میں یہ تمام خصوصیات بدرجہ اتم موجود ہیں۔
محی الدین نواب کی یہ عظیم تخلیق ان کتابوں میں سے ایک ہے’ جسے ایک مرتبہ شروع کرنے کے بعد وقت کے گزرنے کا احساس نہیں ہوتا۔ امید ہے کہ اسے باربار پڑھا جائے گا اور یہ اُردو کی زندہ رہنے والی کتابوں میں سے ایک ہوگی۔