قدیم رشتہ ناول از محی الدین نواب

قدیم رشتہ ناول از محی الدین نواب

قدیم رشتہ ناول از محی الدین نواب

قدیم رشتہ جناب محی الدین نواب صاحب کا ایک اور شاہکار ناول ہے۔ یہ ناول پانچ حیرت انگیز اور عجیب و غریب کہانیوں کا مجموعہ ہے۔ ان کہانیوں میں ” قدیم رشتہ، آتشِ زر، خواب گاہ کے سوداگر، سحر زدہ، اور اصل روپ شامل ہیں۔ ہر کہانی سسپنس ، فکشن ، تجسس اور سنسنی سے بھرپور ہیں۔

پہلی کہانی” قدیم رشتہ” ایک خوبرو نوجوان کی کہانی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اُسے بھرپور مرادنہ حسن سے نوازہ تھا۔ اُنچی سوسائٹی کے دل پھینک حسینائیں اُس پر جان چھڑکتی رہتی تھی۔ بظاہر نہایت شریف نظرآنے والا یہ نواجون اندر سے مکمل شیطان تھا۔ ہماری دنیا کا دستور ہے کہ جتنا بڑا بدمعاش ہو، وہ اتنا ہی زیادہ شریف آدمی سمجھا جاتا ہے، یہی وجہ تھی کہ سوسائٹی میں اُس کی بڑی عزت تھی۔ جرائم کی دنیا میں اُسے ٹائیگر کے نام سے جانا جاتا تھا۔ مگر اچانک کہانی میں عجیب و غریب موڑ آجاتا ہے ، جب اُسے سو سال پہلے مری ہوئی ایک روح سے محبت ہوجاتی ہے۔ اُس کے دل و دماغ میں یہ بات بیٹھ گئی تھی کہ اُس روح کے ساتھ اُس کا بہت قدیم رشتہ ہے۔

دوسری کہانی “آتشِ زر” ایک پُراسرار قبر کی کہانی ہے جس سے چنگاریاں پھوٹتی رہتی تھیں۔ اس قبر میں ایک عظیم خزانہ دفن تھا۔ جو بھی قبر کھود کر خزانہ نکالنے کی کوشش کرتا، وہ جل کر راکھ ہوجاتا۔

تیسری کہانی ” خواب گاہ کے سوداگر” ایک پُراسرار شخص کی حیرت انگیز کہانی ہے۔ وہ مردانہ وجاہت کا شاہکار تھا اور نوجوان لڑکیاں اُس کی دیوانی تھیں۔ مگر جب اُس کا اصل روپ سامنے آیا تو لوگ حیرت زدہ رہ گئے۔

چوتھی کہانی” سحرزدہ” ایک حسین ساحرہ کا عبرت انگیز قصہ ہے جس نے سب کو سحرزدہ کررکھاتھا۔ نواب صاحب کی دیگر کہانیوں کے طرح یہ کہانی بھی تجسس اور سسپنس سے بھرپور ہے۔

پانچویں کہانی” اصل رُوپ” بھی ایک حسین و جمیل عورت کا عبرت اثر کہانی ہے۔ یہ ایک ایسی لڑکی کی کہانی ہے جس کے منگنی کے موقع پر اُس کی پالتو بلی مرگئی جسے بہت بڑی بدشکونی سمجھا جاتا ہے۔ کہانی معاشری میں موجود بے بنیاد وہموں ، وسوسوں اور غیر حقیقی بدشگونیوں کے گرر گھومتی ہے۔

محی الدین نواب کا نام کسی تعارف کا مختاج نہیں ۔ وہ پاکستان کے مایہ ناز ناول نگاروں اور مصنفین میں شامل ہیں۔ محی الدین نواب 4ستمبر 1930 کو انڈیا کے ایک قصبے کھڑگ پور، مغربی بنگال میں پیدا ہوئے۔ نواب صاحب نے میٹرک تک تعلیم اپنے آبائی شہر کھڑگ پور میں مکمل کی۔ 1947 میں تقسیم کے بعد، وہ ڈھاکہ چلے گئے۔ 1971 میں سقوط ِ ڈھاکہ کے بعد، وہ اپنے خاندان سمیت کراچی شفٹ ہوگئے۔ ان کا تعلق اردو بولنے والے گھرانے سے تھا۔ ان کے دادا انٹیرئیر ڈیکوریٹر تھے اور ان کے والد محکمہ ریلوے میں ملازم تھے۔

نواب نے ابتدائی طور پر فرضی نام سے رومانوی کہانیاں لکھنا شروع کیں۔ 23 سال کی عمر میں ان کی پہلی کہانی ’’اک دیوار اک شگاف‘‘ اصلی نام کے ساتھ ایک فلمی میگزین ’’رومان‘‘ میں 1970 کے لگ بھگ شائع ہوئی۔ ایک مصنف کے طور پر طویل جدوجہد کے دور سے گزرنے کے بعد، آخرکار انہوں نے سسپنس ڈائجسٹ کے ایڈیٹر معراج رسول کی توجہ حاصل کی۔ پھر وہ اگلے 40 سالوں تک سسپنس اور جاسوسی ڈائجسٹ کے باقاعدہ مصنف بن گئے۔

نواب نے تقریباً 600 رومانوی، سماجی، جاسوسی، تاریخی ناولز اور مختصر کہانیاں اردو کے کئے مشہور ڈائجسٹوں جیسے جاسوسی ڈائجسٹ اور سسپنس ڈائجسٹ کے لیے لکھیں۔ ان کی کچھ قابل ذکر کہانیوں میں کچرا گھر، ایمان کا سفر، کھلی سیپ، اور ادھا چھرہ شامل ہیں۔ ان کی شاعری اور نثر کا ایک مجموعہ ’’دو تارا‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا ہے۔ نواب نے چند فلموں کے اسکرپٹ بھی لکھے ، تاہم یہ اُن کا طویل تریں ناول “دیوتا” ہے جس نے نواب کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچادیا۔ دیوتا محی الدین نواب صاحب کا سب سے مقبول ناول ہے جو 1977 سے 2010 تک سسپنس ڈائجسٹ میں قسط وار شائع ہوئی تھی۔

انہوں نے فروری 1977 میں دیوتا لکھنا شروع کیا اور جلد ہی یہ سب سے مشہور ڈائجسٹ کہانی بن گئی۔ قارئین اس کی اگلی قسط کا بےچینی کے ساتھ انتظار کرتے تھے۔ دیوتا نے سسپنس ڈائجسٹ کی ماہانہ فروخت کو اپنے کسی بھی حریف ڈائجسٹ سے زیادہ بڑھایا اور نواب اس دور کے سب سے مصروف مصنف بن گئے۔ ناول دیوتا مسلسل 33 سال تک جاری رہا جس کا اختتام 396 اقساط پر ہوا۔ بعد میں اسے 56 جلدوں میں کتابی شکل میں شائع کیا گیا۔ دیوتا تاریخ کے طویل ترین ناولوں میں سرِ فہرست ہے۔

نواب نے سینکڑوں رومانوی اور سماجی کہانیاں لکھیں ہیں، جنکو تقریباً 200 کتابوں میں مرتب کیا گیا ہے۔ رومانوی اور سماجی مسائل نواب کی تحریروں کے بنیادی موضوعات ہیں، جو بے رحمی سے معاشرے کی ننگی سچائیوں کو بے نقاب کرتی ہے۔ تخلیقی استعارے اور لطیف جملے اُس کے مضبوط ہتھیار تھے۔ وہ مردوں کی سخت طبیعت، عورتوں کی نرم نفسیات اور عمومی طور پر انسانی معاشرے کے دوغلے پن سے بخوبی واقف تھے اور اپنی اس بصیرت کو انہوں نے اپنی تحریروں میں منفرد اور غیر معمولی انداز میں استعمال کیا۔ اُس نے افسانے اور حقائق کو اس انداز میں ضم کیا کہ صرف چند مصنفین ہی اس کی کوشش کر سکتے ہیں۔

اُس کے کردار وہ مانوس چہرے ہیں جنہیں قارئین اپنے ارد گرد دیکھتے ہیں۔ جیسے ایک پریشان باپ، ایک خیال رکھنے والی ماں، ایک بے روزگار نوجوان، شادی کی تجویز کی منتظر لڑکی، ایک محنتی مزدور، ایک موٹر مکینک، ایک مولوی وغیرہ۔ اس کی کہانیوں‌کا پلاٹ عمومآ روزمرہ زندگی کے عام ماحول ہوتا ہے۔ وہ عام لوگوں کے منہ میں سماجی دانش کے الفاظ ڈالتا ہے اور شعور بیدار کرتا ہے.

محی الدین نواب صاحب کا انتقال 6 فروری 2016 کو کراچی میں ہوا۔ انہوں نے تین شادیاں کی تھیں اور وہ 3 بیویوں اور 13 بچوں پر مشتمل ایک بڑے خاندان کاسربراہ تھا۔ اللہ تعالیٰ انہیں‌جنت الفردوس میں‌اعلیٰ مقام سے نوازے. آمین

Comments

No comments yet. Why don’t you start the discussion?

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے