من و سلویٰ ناول از عمیرہ احمد 479

من و سلویٰ ناول از عمیرہ احمد

اُردو ناول “من و سلویٰ” تحریر عمیرہ احمد

من و سلویٰ ناول انسانی زندگی پر اخلاقیات کے اثرات اور زرق حلال کی برکتوں کے گرد گھومتا ہے۔یہ کہانی ہے غربت و افلاس کی لعنتوں کے بارے میں جو انسان کو انتہائی قسم کے مادہ پرستی کی طرف لے جاتی ہے ۔ یہ ایک غریب آدمی کی کہانی ہے جس نے اپنے خاندان کے لیے حلال کمایا اور انہیں یہی سکھایا۔ یہ حلال اور حرام کے درمیان فرق کے بارے میں ہے۔ یہ غربت کی لعنت سے گبھرا کر گناہ کے راستے کا انتخاب کرنے والوں کی کہانی ہے ، لیکن ساتھ ہی یہ کردار کی طاقت کی بھی تصویر کشی کرتی ہے جس کی مدد سے کوئی بھی روح کی پاکیزگی کی طرف جا سکتا ہے۔

کہانی کے مرکزی کردار زینب ، شیراز ، کرم علی اور زری مالی حیثیت کے حوالے سے تقریبا ایک ہی طرح کے خاندانوں میں پیدا ہوئے ہیں ۔ سب سے پیچیدہ کردار زینب کا ہے ، جو نہایت فرمانبردار ، محبت کرنے والی اور دیکھ بھال کرنے والی مذہبی لڑکی ہے. زینب کا والدایک ایماندار آدمی ہے. وہ محکمہ انکم ٹیکس میں کلرک ہے اور رشوت کے مواقع ہونے کے باوجود ہمیشہ رزق حلال کمانے پر قائم رہا۔ زینب ہمیشہ اپنے باپ کی محبت کی پناہ میں رہتی ہے. اس کی منگنی اس آدمی سے ہوئی جس سے وہ محبت کرتی ہے۔ اس کی شخصیت میں ایک خامی یہ ہے کہ وہ بے وقوفی کی حد تک جذباتی ہے اس لئے وہ شیراز کے محبت میں اس قدر جذباتی ہو گئی کہ وہ اس کے کردار میں بہت سی واضح خامیوں کو بھی نظر انداز کرتی رہی۔

شیراز اُس کے والد اور اُس کے “رزق حلال کے نظرئے” کا سخت مخالف تھا۔ زینب کے برعکس ، وہ بالکل مذہبی نہیں تھا۔ اگر وہ اس کے لیے اپنی محبت میں کچھ سمجھدار یا تھوڑی کم اندھی ہوتی تو اس کی مادیت پسندانہ سوچ کو دیکھنا مشکل نہ ہوتا۔ ایک اور چیز جو مجھے غیرمعمولی معلوم ہوئی وہ زینب اور شیراز کی آزاد خیالی تھی جو پاکستان کے نچلے طبقے اور خاص طور پر مذہبی خاندانوں میں عام نہیں ہے۔

شیراز نے زینب کو ایک بہت امیر خاندان میں رشتہ ملنے کی وجہ سے چھوڑ دیا، اس لئے وہ ایک بڑی جذباتی اتار چڑھاؤ سے دوچار ہے اور یہ سمجھتے ہوئے کہ غربت ہی اس کی مصیبت کی وجہ تھی ، وہ جلد سے جلد امیر بننے کی خواہش میں پھنس گئی ہے. وہ چاہتی تھی کہ کم سے کم وقت میں‌زیادہ سے زیادہ پیسہ کمائے تاکہ وہ اپنے آپ کو اس مقام پر رکھ سکے جس کے لئے شیراز نے اسے چھوڑ دیا تھا۔ وہ انتقام کی آگ میں جلس رہی ہے اور چاہتی ہے کہ اپنی بدنامی کا بدلہ لے. ستم ظریفی یہ ہے کہ اپنی خواہش کی تکمیل کے لئے وہ خود کو مزید رسوا کرنے کا انتخاب کرتی ہے۔

جو میں سمجھنے میں ناکام رہا وہ یہ ہے کہ شیراز ، جو کہ ایک ذہین شخص تھا ، اتنا اندھا ہوا کہ یہ سوچا تک نہیں کہ ایک امیر اور طاقتور آدمی بغیر کسی وجہ کے اپنی بیٹی سے اس کی شادی کیوں کرنا چاہتا ہے۔ دولت کی ہوس میں اس نے اپنی زندگی کا مکمل کنٹرول دوسروں‌کے ہاتھ میں دے دیا. پوری کہانی میں اُس نے اپنے آپ کو مکمل بیوقوف ثابت کیا ، اور عجیب بات یہ ہے کہ اس نے کبھی اتنا دکھ محسوس نہیں کیا جتنا کسی شخص کو ایسی صورت حال میں محسوس کرنا چاہیے تھا۔

کرم علی کا کردار سب سے زیادہ مہم جوئی کرنے والا ہے لیکن فرق یہ ہے کہ زینب اور شیراز کے برعکس اس کے کام زیادہ تر غیر ارادی تھے۔ وہ اپنے بہن بھائیوں میں سب سے بڑا ہے اور شیراز کی طرح ، اس نے بھی اپنے خاندان کے لیے معاش کمانے کی ذمہ داری اٹھائی ۔ وہ شیراز سے بھی بدتر مالی حالت میں تھا لیکن اُس کے برعکس ، اِس نے کبھی بھی غیر قانونی طریقوں سے پیسہ کمانے کے امکان پر غور نہیں کیا۔ وہ جذباتی ہونے اور اپنے پیاروں سے غداری کا تجربہ کرنے میں زینب کی طرح تھا لیکن اس کے برعکس ، اس نے کبھی بھی اپنی روح کی پاکیزگی پر سمجھوتہ نہیں کیا اور نہ ہی انتقام کا خیال اس کے ذہن میں آیا۔ اپنے لوگوں کے سکون کی خاطر اس نے اپنے مسائل بانٹنے کے بجائے تنہا ہر رکاوٹ کا سامنا کرنے کا انتخاب کیا۔ کرم علی اس کہانی کا ایک عظیم کردار ہے جس کے ذریعے عمیرہ نے دکھایا ہے کہ صحیح راستے پر رہنا ناممکن نہیں ہے۔

زری کا کردار جہالت ، جذباتی کمزوری اور غربت کے چنگل سے بچنے کی خواہش کا امتزاج ہے جو تمام کرداروں میں مشترک ہے ۔ وہ جمال سے شادی کرنا چاہتی تھی جو کہ واضح طور پر ناقابل اعتماد ، غیر ذمہ دار اورتشدد پسند شخص ہے ، لکین وہ اس مالی پناہ میں رہنا چاہتی تھی جو جمال اسے فراہم کرسکتا تھا۔ بالآخر اس کے انتخاب نے اسے ناخوش ، بے عزت اور تشدد کا نشانہ بنا دیا۔

من و سلویٰ ایک بہت ہی بھرپور کہانی ہے جس میں پاکستان کی کچی آبادیوں کی زندگی ، عرب شیخوں کی بے رحمی ، فلم انڈسٹری کے لوگوں کی بدحالی ،گلیمر اور انکی دکھی اور مصنوعی زندگی، جن کی ضروریات انہیں ان کے خونی رشتوں سے دور لے جاتی ہیں.
اس کہانی میں آپ ایسے کردار وں سے ملیں گے جن سے آپ محبت کرتے ہیں ، نفرت کرتے ہیں اور اُن پر افسوس کرتے ہیں۔ ان کے رویے اور اعمال بعض اوقات اشتعال انگیز ، کبھی غیر معقول اور کبھی بہت نرم ہوں گے۔ یہ ان لوگوں کی کہانی ہے جو غربت سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن جو چیز شک سے بالاتر ہو کر واضح ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ رزق حرام غربت سے باہر نکلنے کا راستہ نہیں ہے۔ جو چیز آپ قانونی طور پر حاصل کر تے ہیں وہ آپ کے لیے من و سلویٰ ہے اور اسی کے لیے آپ کو شکر گزار ہونا چاہیے اور اس سے مطمئن رہنا چاہیے۔مجموعی طور پر ، یہ ایک ناقابل فراموش اور عمدہ کہانی ہے۔

من و سلویٰ صحیح راستہ اختیار کرنے اور غلط راستے پر چلنے سے بچنے کی جدوجہد کی کہانی ہے۔ رزق حلال (قانونی کمائی) اور رزق حرام (غیر قانونی کمائی) کے درمیان جدوجہد ہماری روز مرہ کی زندگی کا حصہ ہے۔ عمیرہ احمد نے اس موضوع کو جتنی خوبصورتی سے پیش کرنے کی پوری کوشش کی وہ قابل ستائش ہے. پلاٹ مضبوط اور یقینی طور پر پڑھنے کے قابل ہے ۔یہ کتاب ان تمام جذبات سے بھری ہوئی ہے جو ایک شخص محسوس کرتا ہے جب وہ ایسے حالات میں ہوتے ہیں جس میں کہانی کے کردار ہیں۔

اس کتاب کی درجہ بندی کرنا بہت مشکل کام ہے اور یہ بتانا کہ یہ اچھی ہے یا بری اس سے بھی مشکل ہے کہ تمام کردار اور حالات مختلف قسم کی انتہاؤں کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ من و سلویٰ کئی پہلوؤں سے ایک بہترین ناول ہے ، لیکن اس میں کچھ خامیاں بھی ہیں. ایک تو یہ غیر ضروری طور پر طویل اور ڈرامائی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ کرداروں سے غیر فطری اور غیر موزوں طریقے سے کام لیا گیا ہے۔ تیسرا ، مجھے نہیں لگتا کہ یہ عمیرہ احمد کی بہترین تحریروں کی مثال ہے۔ اُ ن کے دیگر ناولوں پیر کامل، آب حیات، تھوڑا سا آسمان، امربیل اور دوسری مختصر کہانیوں میں اُن کے لکھنے کا انداز ا بہت بہتر ہے۔ اس کے باوجود مجھے یہ پسند آیا کیونکہ اس میں لوگوں کے لئے ایک بہترین سبق موجود ہے۔ نیز ، یہ کچھ بہت ہی سنگین سماجی مسائل کے بارے میں آگاہی فراہم کرتی ہے. صبر کرنا اور حلال زندگی گزارنا آپ کو اس دنیا کی تکلیف میں مبتلا کر سکتا ہے لیکن انتقام، سازش اور حرام زندگی آپ کو جہنم کے عذاب میں مبتلا کردے گی جہاں آپ نہ مر سکتے ہیں اور نہ زندہ رہ سکتے ہیں۔ یہ ناول پہلی بار ماہنامہ خواتین ڈائجسٹ میں قسط وار شکل میں نومبر 2006 تا نومبر 2007 تک شائع ہوا اور بعد میں کتابی شکل میں‌شائع کیا گیا.

یہاں‌سے ڈاؤنلوڈ کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں