امرت کور ناول از امجد جاوید 150

امرت کور ناول از امجد جاوید

امرت کور ناول از امجد جاوید

امرت کور امجد جاوید کا ایک شاہکار ناول ہے۔ یہ 14 اگست سے منسلک ایک خصوصی ناول ہے جس میں مذہب اور سرحدی حدود سے آزاد ایک ابدی سچی محبت کی کہانی ہے۔ “امرت کور” محبت اور مذہب کے درمیان کشمکش کی کہانی ہے، جو 1947 میں تقسیم ہند پر امرت کور اور نور محمد کے ساتھ شروع ہوئی اور 60 سال بعد تیسری نسل میں بلال حسن اور زویا کے ساتھ جدید انگلینڈ میں ختم ہوئی۔

پاکستان جوشہیدوں کی امانت ہے، ان ایک لاکھ سے زائد بیٹیوں کی مقدس امانت ، جن کی قسمت اس کے حصول کی بھینٹ چڑھ گئی۔ یہ ان معصوم بچوں کی امانت ہے جن کو ہندوؤں اور سکھوں نے نیزو میں پرو دیا تھا۔ ان ماؤں کی امانت ہے جن کے پیٹ چاک کر کے بچے نکال کر پیروں تلے کچلے گئے ۔ یہ اُن لوگوں کی امانت ہے جنہوں نے اپنے گھر بار ، کاروبار اور جائدادیں اس پاک دھرتی کے حصول کے لئے قربان کردی۔

تحریک پاکستان سے لے کر قیام پاکستان کے دوران ایسی بے شمار کہانیوں نے جنم لیا جن پر افسانے کا گمان ہوتا ہے۔ “امرت کور” بھی ایسا ہی ایک کردار ہے جو حقیقی ہوتے ہوئے بھی افسانوی لگتا ہے۔ انگلینڈ جیسے ترقی یافتہ ملک سے شروع ہونے والی اس جذباتی اور ناقابل فراموش داستان کے ڈانڈے امرتسر بھارت کے ایک پسماندہ گاؤں جتوال سے جا ملتے ہیں جہاں امرت کور رہتی ہے۔ پراسرار امرت کور جس نے برسوں سے چپ کا روزہ رکھا ہوا ہے اور کوئی نہیں جانتا کہ اس خاموشی کے اندر کتنے بھید پوشیدہ ہیں۔ گاؤں کے لوگوں کا خیال ہے کہ یہ اللہ والی ہے، اور جس کے سر پر ہاتھ رکھ دے اس کہ بگڑے کام سنور جاتے ہیں۔

اس کہانی کا ہیرو بلال اپنے سکھ دوست کے مجبور کرنے پر اپنی محبت کو پانے کے لیے انگلینڈ سے جتوال جاتا ہے تاکہ امرت کور اس کے سر پر ہاتھ رکھے اور اُس کی مراد بھرآئے ۔ امرت کور جب بلال کو دیکھتی ہے تو اس کے وجود میں زلزلے آجاتے ہیں اور برسوں کی خاموشی اک پل میں ٹوٹ جاتی ہے۔ وہ بڑے جذب کے عالم میں کہتی ہے آگیا تُو، تجھے تو آنا ہی تھا۔ یہاں سے جذبہ عشق کی ایک لازوال داستان کا انکشاف ہوتا ہے اور یہی اس کہانی کا کلائمکس ہے۔

کہانی پڑھیے اور جانیئے کے پاکستان ہمیں ایسے ہی تھالی میں پروس کر نہیں دیا گیا۔ بلکہ اس کے لیے ہمارے آباؤاجداد نے بہت سی قربانیاں دی ہے۔ تقسیم ہند اور قیام پاکستان کے حوالے سے ایک زبردست تحریر.

یہاں‌سے ڈاؤنلوڈ کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں