فاتحِ اعظم صلاحُ الدین ایُوبی از خان آصف

فاتحِ اعظم صلاح الدین ایوبی از خان آصف

فاتحِ اعظم صلاح الدین ایوبی تاریخی ناول از خان آصف

زیرنظر کتاب سلطان صلاح الدین ایوبی (1137 – 1193) کی زندگی کے بارے میں خان آصف کا لکھا ہوا ایک تاریخی ناول ہے ، جس میں اس عظیم مجاہد کا بچپن ، جدوجہد اور فتوحات کو کہانی جیسی خوبصورتی سے دکھایا گیا ہے۔
گیارہویں صدی عیسوی کے آخر (1091ء) سے صلیبی جنگوں کا آغاز ہوا اور یہ سلسلہ تیرہویں صدی عیسوی کے آخر ( 1091ء سے 1291ء) تک جاری رہا۔ دوسو برس سے زائد اس معرکہ آرائی میں جرمنی، فرانس، برطانیہ اور یورپ کے تمام عیسائی حکمرانوں نے حصہ لیا۔ ان صلیبیوں کا مقابلہ والئ موصل عمادالدین زنگی، سلطان نورالدین زنگی اور سلطان صلاح الدین ایوبی جیسے مجاہدوں نے کیا۔ ایوبی خاندان کے بعد مملوک (ترک) صلیبیوں سے نبرد آزما رہے۔ اس طرح کل سات بڑی صلیبی جنگیں ہوئیں۔
صلاح الدین کا تعلق کردقوم سے تھا۔ وہ 19 ستمبر 1138ء میں تکریت کے مقام پر پیدا ہوا۔ اس کا نام یوسف رکھا گیا۔ صلاح الدین نے سلطان نورالدین زنگی کے زیرسایہ تربیت پائی۔ 1160 ء ( 555ھ) میں جب صلیبیوں کو صلاح الدین نے مصر سے نکال باہر کیا تو خلیفہ العاضد الدین اللہ نے یوسف کو ملک الناصر صلاح الدین ایوبی کا نام عطاء کیا۔ اس وقت صلاح الدین ایوبی کی عمر 22 سال تھی۔
سلطان نورالدین زنگی کی طرح صلاح الدین ایوبی کو بھی بیت المقدس سے عشق تھا ۔ بیت المقدس (یروشلم) یہودیوں ، عیسائیوں اور مسلمانوں کے لئے خاص اہمیت کا حامل شہر ہے۔ یہودی اسے یوں مقدس سمجھتے ہیں کہ حضرتِ سلیمان علیہ السلام نے عظیم الشان عبادت گارہ (ہیکل سلیمانی) بنائی تھی۔ عیسائی اسے اس طرح اہم جانتے ہیں کہ یہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے تعلیم و تبلیغ کا سلسلہ جاری رکھا تھا۔ اور مسلمانوں کے لئے یہ شہر اس لئے مقدس ہے کہ اس قبلہ اول سے سرور کونین آنحضرت محمد ﷺ نے سفرِ معراج کیا تھا۔
638ء میں خلیفہ ثانی امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بیت المقدس ( یروشلم) فتح کیا۔ اس فتح کے نتیجے میں مسلمان اور عیسائی یہاں پُرامن طور رہنے لگے۔ یہودی، عیسائی اور مسلمان دیگر علاقوں سے یہاں زیارت کے لئےآتے رہے۔ پھر 1099ء میں عیسائی فوج نے بیت المقدس (یروشلم) پر قبضہ کرلیا۔ وہاں کے باشندوں کا بے دردی سے قتل عام کیا۔ بیت المقدس کی آزادی کے لئے جب صلاح الدین ایوبی نے تلوار اُٹھائی تو تما عیسائی دنیا صلاح الدین ایوبی کے خلاف صف آرا ہوگئی۔ صلیبی فوج کی تعداد دس لاکھ سے زائد تھی جبکہ صلاح الدین ایوبی کا لشکر چالیس ہزار سپاہیوں پر مشتمل تھا۔ صلیبیوں کے پاس جدید ترین اسلحہ تھا اور باعمل اہلِ ایمان کے پاس صرف برہنہ تلواریں تھیں اور اللہ کی ذات پر غیر متزلزل یقین۔ یہ وہ ہتھیار تھے جن کے بھروسے صلاح الدین ایوبی نے تیسری صلیبی جنگ (1187ء) میں وہ عظیم الشان فتح حاصل کی جس کی سوزش سے آج بھی عیسائی دنیا کے سینے جلتے ہیں۔ زخموں کی اس جلن کو مٹانے کے لئےعیسائی دنیا نے دوبارہ صلبی جنگوں کا آغاز کردیا ہے۔ افغانستان اور عراق اس کی تازہ مثالیں ہیں۔ ان صلیبی جنگوں سے نمٹنے کے لئے ایک مرتبہ پھر فاتح اعظم صلاح الدین ایوبی جیسے مجاہد ِ اسلام کی ضرورت ہے ۔
اس کتاب میں مسلمانوں کی سنہری تاریخ اور اسلام کے ان نڈر رہنماؤں کی عکاسی کی گئی ہے جو کبھی بھی اپنے راستے سے نہیں ہٹے۔ تین صلیبی جنگوں کے گرد گھومتی یہ کتاب ہمیں اُن واقعات کے بارے میں بتاتی ہے جنہوں نے یوسف کو سلطان صلاح الدین ایوبی بنادیا۔ خان آصف نے لڑائیوں کا احوال نہایت باریک بینی کے ساتھ لکھی ہے۔ کہانی کا بیانیہ بہت خوبصورت ہے جس میں مجاہدین کا آپس میں ہنسی مذاق بھی دکھا یا گیاہے۔

یہاں سے ڈاؤنلوڈ کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں