کتاب “د پښتنوں تاریخ” تحریر و تحقیق قاضی عطاء اللہ
قاضی عطاء اللہ کی تاریخ پشتو زبان میں پشتونوں کی تاریخ پر دوسری مستند کتاب ہے جسے ایک پشتون تاریخ دان نے ایسے وقت لکھا ہے جب پشتون کی تمدن، کلچر اور تاریخ پرایک بار پھر تاریکی چھارہی تھی۔ پشتون قوم جو کہ قبل از تاریخ اپنی ایک پہچان اور ایک تمدن رکھتی تھی۔ بیسویں صدی عیسوی میں ایک بار پھر پٹھان قوم نے ساری دُنیا کو اپنی شناخت، اپنی قومی خصوصیت، اپنا نام اور اپنی مٹی سے بے پناہ محبت کا احساس دلایا ہے۔
چونکہ تاریخ کے مختلف ادوار میں یہ قوم اور ان لوگ کو مصلحتاً دُنیا کی نظروں سے پوشیدہ رکھا گیا اور اگر اس قوم کو دنیا کو دکھایا بھی گیا تو بالکل غلط تصویر اور رنگ میں پیش کیا گیا۔ اس کے بہت ساری اسباب ہیں جو کہ سیاسی، نفسیاتی، تعصبی اور تاریخی ہیں۔ پشتون قوم نے دنیا کی تاریخ، علاقائی کلچر اور تہذیب پر گہرے اثرات مرتب کئے ہیں کیونکہ یہ قوم ایک بہت اعلیٰ تاریخ و تمدن کی حامل رہ چکی ہے۔ لیکن پھر بھی بہت سے سیاسی مصلحتوں کی وجہ سے اس قوم کا اصل کردار تاریخ کی نظر سے چھپانے کی مذموم کوششیں ہوچکی ہے اور آج بھی جاری ہے۔
ایک روایت کے مطابق یہ مذموم کام سب سے پہلے ہندوستان کے مغل دربارنے کی تھی۔ مغل بادشاہوں نے اپنے درباری نام نہاد مورخین کے ذریعے پشتونوں کی ایسی تاریخیں لکھی کہ یہ عزت دار، بہادر اور اعلیٰ ظرف قوم ہندوستان کے محکوم عوام کو کم تر نظر آئے۔ یہ ایک سیاسی حربہ تھا اس لئے کہ ہندوستان میں اسلام کی روشنی بھی پشتونوں نے پھیلائی تھی اور ہندوستان کو اسلامی تمدن کا گہوارہ بنانے والے بھی پٹھان ہی تھے اور یہاں کی عمومی تہذیب پر بھی پشتون اثرات مرتب ہوچکے تھے۔ ہندوستان کے لوگوں کے ذہنوں میں پشتونوں کی ایک مخصوص تصویر بن چکی تھی۔ اپنے خلئے، ذہنی صلاحیتوں یہاں تک کے بہت سے معاشرتی وا صلاحی کاموں کی وجہ سے اور مذہب اور سیاست میں پشتون بادشاہوں کی تنگ نظری اور تعصب سے پاک کردار کی وجہ سے ہندوستانی لوگ بادشاہت اور حکمرانی کے لئےپشتونوں کو اصل، قابل اور فطری حکمران تصور کرتے تھے۔ جب مغلوں نے ہندوستان کی حکومت پشتونوں سے چھین لی تو عوام کی ذہنوں سے یہ تصویرمٹانے کے لئے اپنے درباری مورخین سے پشتونوں کی اصل نسب کے باری میں افسانوی تاریخیں لکھوانی شروع کر دی ۔ تاکہ ہندوستان کے لوگ جو کہ ذات پات کے بارے میں بہت سنجیدہ، فطری اور نفسیاتی رویہ رکھتی ہے ان کی ذہنوں میں پشتونوں کی اصل نسل کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کریں۔
جب اس طرح کی تاریخیں لکھنی شروع کردی گئی تو حقیقی پشتونوں نے اس کا جواب لکھنے کی غرض سے پشتونوں کی اصل نسل کے بارے میں خود تحقیقات شروع کردئے۔مغل دربار کے ایک روایتی پشتون امیر ” خان جہان لودھی” نے مغلوں کی تنگ نظری اور پشتونوں کی بے عزتی کے ازالے کے لئے حقیقی تاریخ لکھنے کی کام کی سرپرستی اور حوصلہ آفزائی کا کا م سرانجام دیا۔
نعمت اللہ ھروی کی تاریخ مخزنِ افغانی پشتونوں کی تاریخ کا حلیہ بگھاڑنے کا بہترین جواب ہے۔ حیاتِ افغانی اور تواریخ خورشید جھان بھی پشتونوں کی تاریخ کے بارے میں اہمت کے قابل ہیں لیکن “مخزن افغانی” بہت عرصے تک مورخین کے لئے ایک ماخذ رہ چکا ہے۔
پشتون قوم تاریخ کے المیوں کے وجہ سے اکثر تاریکی میں رہے ہیں یا تاریکی میں رہنے پر مجبور کردئے گئے ہیں۔ لکھنے پڑھنے ، تعلیم اور تعلیمی کام کی کمی کی وجہ سے اکثر تاریخیں فارسی زبان میں لکھی گئی ہیں۔ فارسی چونکہ پشتونوں کی مادری زبان نہیں اس لئے فارسی زبان سمجھنا اور سمجھانا بہت مشکل کا م تھا۔ اس وجہ سے افضل خٹک ، خوشحال خان کے نواسے نے اپنے دادا کے تحریک کے نتیجے میں ایک ایسے دور اور ایسے حالت میں پشتونوں کی تاریخ پشتو زبان میں لکھی جب فارسی سرکاری زبان کے ساتھ ساتھ تعلیم کا ذریعہ بھی تھی۔ افضل خٹک خود بھی مغل دربار سے وابستہ تھے لیکن اسے اپنی خاندانی روایات ہر چیز سے زیادہ عزیزتھیں۔
ایک وقت ایسا بھی آیا جس میں نہ صرف افضل خٹک کی “تاریخ مرصع” بلکہ پشتو تحریک کے ذرین دور کے سب آثار ناپید ہوگئے اور پشتونوں کے تاریخ پر ایک بار پھروہی اندھیرا چھا گیا جو اس قوم پر ان کی اپنی کم علمی کی وجہ سے وقتاً فوقتاً چھاتا رہا ہے ۔اس دور میں پشتونوں پر مستشرقین نے احسان کیا کہ انہوں تحقیق کے نئے دروازے کھول دئے اور پشتونوں کی تاریخ پر عمدہ تحقیقات کئے لیکن وہ اس سرزمین کے لوگ نہیں تھے۔ وہ تاریخی واقعات اور حالات کا تجزیہ اُس طرح نہیں کرسکتے تھے جس طرح کہ سرزمین پر رہنے والا کوئی پشتون کرسکتا تھا۔
اس دور میں قاضی عطاءاللہ نے پشتونوں کی تاریخ ایک تاریخی ضرورت سمجھ کر لکھی ۔ اگرچہ یہ تاریخ بھی اس دور میں لکھی گئی جب تاریخ کو سائنس کا درجہ حاصل نہیں تھا اور نہ ہی تاریخ ایک آرٹ مانی جاتی تھی۔ آرٹ کے جو نمونے مغلوں یا دوسرے تاریخوں میں ملتے تھے اس کی صحت اور درستگی کے لئے پشتو زبان میں تاریخ لکھنا ضروری تھا۔لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ تاریخ اُن دنوں بھی علم کا ایک اہم ذریعہ تھا۔
قاضی عطاءاللہ جو ایک بڑے عالم، تاریخ دان،ملی مبارز اور تحریک آزادی کے ایک نڈر اور اہم مجاہد تھے۔باچہ خان کے خدائی خدمتگار تحریک کےسرگرم لیڈروں میں سے تھے۔ انہوں نے نہایت نامساعد حالات کے باوجود یہ اہم تاریخی و تحقیقی کام سرانجام دیا۔ قاضی عطاء اللہ کا مقصد پشتونوں کی تاریخ اور تاریخی کردار کی اصل اور روشن تصویر سامنے لانا ہے جس میں پشتونوں کی حاکمیت اور حکومت اور ان کی شان و شوکت کو پورے آب و تاب سے بیان کیا گیا ہے۔
پشتونوں کی اصل نسل کے بارے میں ابھی تک تاریخ دان کسی ختمی فیصلہ پر متفق نہیں ہوئے ۔ مختلف تاریخ دانوں کے مختلف نظریات ہیں۔ قاضی عطاء اللہ پشتونوں کے اصل نسب کے بارے میں بنی اسرائیل والے نظریہ کے حامی ہے۔ اور قاضی صاحب مرحوم کے بعد بھی مورخین نے اسی نظریہ کو مانا ہے ۔ قاضی عطاء اللہ مرحوم کی یہ تاریخ ایک اہم دستاویز ہے اور پشتونوں کی تاریخ و تمدن پر ایک مستند اور گرانقدر سند کا درجہ رکھتی ہے جس میںپشتونوں کا مکمل شجرہ نسب بیان کیا گیا ہے.