آسٹریلیا کی جھلک از تاج یٰسین علی خان 282

آسٹریلیا کی جھلک از تاج یٰسین علی خان

سفرنامہ “آسٹریلیا کی جھلک” از بیگم تاج یٰسین علی خان

دنیا کی ترقی یافتہ زبانوں میں سفر ناموں کا بھی کثیر ذخیرہ موجود ہے۔ سفرنامے تاریخی، جغرافیائی، معاشرتی، تمدنی اور سماجی حالات کے معتبر خزانے ہوتے ہیں۔ اس امر کا پتہ چلانا کہ پہلے کس زبان میں سفرنامہ لکھنے کی ابتداء ہوئی دشوار ہے۔ ہندوستان کی قدیم تاریخ کے لئے چینی اور یونانی سیاحوں کے سفرنامے اب تاریخ کا ماخذ بنے ہوئے ہیں۔ اسی طرح عرب سیاحوں کے سفرنامے اہم حیثیت رکھتے ہیں۔ اگر ان سفرناموں کو لٹریچر سے خارج کردیا جائے تو پھر اس زمانہ کے بہت سارے حالات تاریکی میں رہ جائیں گے۔
اردو زبان میں سفرناموں کا آغاز کب سے ہوا؟ اس کے متعلق ہنوز کوئی صحیح خیال ظاہر نہیں کیا جاسکتا۔ کیونکہ اب تک کسی مورخ ِ ادب کو کوئی قدیم قلمی سفرنامہ ہمدست نہیں ہوا ہے۔ مطبوعہ سفرناموں میں سب سے قدیم سفرنامہ یوسف خان کمل پوش کا ہے جو حیدرآباد کا باشندہ تھا اور ۱۸۳۸ء میں سفرنامہ یورپ “عجائباتِ فرنگ” کے نام سے مرتب کیا اور نو سال کے بعد وہ ۱۸۴۷ء میں شائع ہوا۔
“عجائباتِ فرنگ” نہ صرف یورپ کا پہلا سفرنامہ ہے بلکہ موجودہ معلومات کی حد تک اردو زبان کا پہلا سفرنامہ ہے۔ یوسف خان کمل پوش نے اس کو اپنے سفرِ یورپ کے بعد مرتب کیا اور کئے مرتبہ شائع ہوا۔ دوسرا سفرنامہ سید مظفرالدین حیدر لکھنوی کا ہے جو ۱۸۷۲ء میں “سیرِ فرنگستان “کے نام سے شائع ہوا ۔
بیگم سید یاسین علی خان کا سفر نامہ “آسٹریلیا کی جھلک” حیدر آباد کے مشہور علماء کے خاندان کے ایک حاتون رکن کی بصیرتِ نظر اور ذکاوتِ فہم کی پیداوار ہے۔ یہ خاتون مشاہدہ کی بڑی اچھی قوت رکھتی ہیں اور اپنے خیال کے اظہار پر خوبی سے قادر ہیں۔ ان کی طبیعت میں ظرافت، شگفتگی اور انبساط کی کمی نہیں ۔
سفرنامہ اسٹریلیا مسز تاج سلطانہ بیگم نے مرتب کیا ہے جو ۱۹۵۵ء میں شائع ہوا تھا۔ اس سفرنامے کی پہلی خصوصیت یہ ہے کہ یہ اردو زبان میں اسٹریلیا کا پہلا سفرنامہ ہے، اس سے پہلے کسی مرد یا عورت نے کوئی سفرنامہ نہیں لکھا۔ مسز سید یاسین علی خاں کا سفرنامہ مختلف امور کا خزانہ ہے۔ اس میں آثار قدیمہ ، مشہور مقامات کی تفصیل بھی ہے اور سماجی ، معاشرتی، صنعتی امور کا انکشاف بھی ہوتاہے۔ کھیل اور تفریح کے امور بھی ظاہر ہوتے ہیں۔ مناظرِ قدرت اور مصنوعی تفریح کے مقامات کی صراحت بھی۔
اس سفرنامے کے مطالعہ سے آپ کو آسٹریلیا کے مشہور مقامات کی تاریخ، آثارِ قدیمہ کا تذکرہ، تفریح اور دلچسپ مقامات کا حال، مناظر قدرت اور عجائبات کی تفصیل کے ساتھ آسٹریلیا والوں کی سماجی ، معاشرتی ، اخلاقی، تجارتی اور نفسیاتی سیرت اور کردار کا بھی انکشاف ہوگا۔ ان کے رہنے سہنے، کھانے پینے ، ملنے جلنے کی صراحت واضح ہوگی۔ آسٹریلیا کا سفر کرنے والوں کے لئے بہترین رہنمائی اور رہبری ہوگی۔ بہ الفاظ مختصر اس کو معلومات آفریں سفرنامہ کہنا چاہیئے جس سے ہر قسم کی معلومات حاصل ہوسکتے ہیں۔ تاریخی ہو یا معاشرتی، صنعتی ہو یا تجارتی، سماجی ہو یا تفریحی ہو۔ غرض یہ سفرنامہ ہر قسم کی معلومات کا حامل ہے اور ہر نقطہ نظر کی شخصیت کے لئے معلومات کا بیش بہا خزانہ بنا ہوا ہے۔
اس سفر نامہ کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ عام فہم اور سلیس زبان میں ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ رنگینی اور دلکشی، شوخی کے انمول نگینے بھی ہیں۔ بڑے ہی دلچسپ انداز اور جدت آمیز طریقہ سے لکھا گیا ہے۔ معلومات آفریں بھی ہے اور بصیرت افروز بھی۔ اسلوب بیان مزاخیہ رنگ لئے ہوئے ہے۔ اس کا پڑھنے والا تبسم اور مسکراہٹ کی دنیا میں پہنچ جاتا ہے۔ اس سفرنامہ کا یہ انداز بیان اولیت کا شرف رکھتا ہے کیونکہ کسی سفرنامہ میں اس قسم کا اندازِ بیان نہیں ملےگا۔
اگرچہ بیگم سید یاسین علی خان کے اس سفرنامہ سے پہلے دنیائے اردو ان کی طرزِ تحریر اور اندازِ نگارش سے تقریباً بیگانہ تھی لیکن ان کا یہ پہلا کارنامہ ہی ان کو ایک اچھی انشاپرداز اور قابل مضمون نگار قرار دینے کا ضامن ہوجاتا ہے۔ یہ سفرنامہ سبق آموز بھی ہے ۔ اس سے ہر نقطہ خیال کے لوگوں کو سبق ملتا ہے۔ سیرت اور خیالات کی اصلاح ہوسکتی ہے۔ مصنفہ نے جگہ جگہ ایسے امور بیان کئے ہیں جو سبق آموز اور عبرت انگیز ہیں۔ اچھی اور بُری باتوں کو نظرانداز نہیں کیا۔ آسٹریلیا والوں کے اخلاق ، عادات، ان کے نفسیات، ان کے کردار، ان کے تعلیم ، ان کے تجارت، ان کی فنی مہارت، عرض ہر قسم کے عکس آپ کی نگاہ کے سامنے سنیما کی طرح واضح طور پر پیش ہوجاتے ہیں جو مصنفہ کی قابلیت پر دال ہیں۔
اسی طرح اس سفرنامے کے اور بھی بہت سے خصوصیات ہیں جس کی وجہ سے یہ سفرنامہ دوسرے سفرناموں سے ممتاز ہوجاتاہے۔ مثلاً اس سے خود مسز یاسین علی خاں کی سیرت اور کردار پر اچھی روشنی پڑتی ہے۔ انہوں نے اپنی اچھی یا بُری باتوں کو نظرانداز نہیں کیا، بلکہ صاف صاف قلم بند کردیا ہے۔ اس سے ان کے بچپن سے جوانی تک کا کردار واضح ہوجاتا ہے۔
اگر یہ کہا جا ئے کہ اس سفرنامہ سے مسز یاسین علی خاں کی کردار اور سیرت سے پوری طرح آگاہی ہوسکتی ہے تو صحیح ہوگا۔ ایک اور سبق جو اس سفرنامہ سے ملتا ہے وہ میاں بیوی کی خوش گوار ااور مسرت آمیز زندگی بسر کرنے کا طریقہ ہے۔ موصوفہ نے جگہ جگہ ان عورتوں کو بڑا اچھا سبق دیا ہے جو اپنے شوہر کو خوش نہیں رکھتیں اور بتایا ہے کہ کس طرح مختلف الخیال شوہر کو خوش رکھا جا سکتا ہے۔ اور کس طر ح ایک بہترین جوڑا اور بہترین ساتھی بن سکتے ہیں۔ اس میں وہ گُر ملتے ہیں جس سے مختلف الطبیعت شوہر کو راضی اور خوش رکھا جاسکتا ہے۔
اس سفر نامہ کے مطالعہ میں کہیں آپ افسانہ کی سی دلکشی پائیں گے تو کہیں واقعہ نگاری اور مرقعہ نگاری کے جوہر نظر آئیں گے۔ کہیں مزخیہ انداز سے تبسم کی دنیا میں چلے جائیں گے تو کہیں شوخی ، رنگینی اور لطافت کے ساتھ پاکیزہ خیالات کی فراوانی ملے گی۔ کہیں عبرت کا سبق ملے گا تو کہیں طنز کے نشتر چبیں گے ۔ غرض یہ کہ یہ سفرنامہ بحیثیت مجموعی قابل داد اور لائقِ تحسین ہے۔ مجھے یقین ہے کہ آپ یہ سفرنامہ پڑھ کر کافی محظوظ ہونگے کیونکہ سفرنامہ میں ضیافتِ طبع کا اچھا سامان مہیا کیا گیا ہے۔

یہاں‌سے ڈاؤنلوڈ کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں