تاریخی ناول نادار لوگ از عبداللہ حسین
نادار لوگ عبداللہ حسین کا ایک اور شاہکار تاریخی ناول ہے. اس ناول کا پہلا ایڈیشن 1996 میں شائع ہوا تھا۔ عبداللہ حسین کا یہ ضخیم ناول برصغیر کی تاریخ کے اٹھتر برس کی سیاسی اور سماجی تاریخ کے حالات بیان کرتا ہے۔ عبداللہ حسین کے اولین ناول “اُداس نسلیں” کے بعد یہ ان کا پہلا ناول ہے جو اتنے وسیع پس منظر میں ہماری زندگی کے تمام پہلوؤں کی تصویر پیش کرتا ہے۔ اس ناول کی تصنیف میں چھ برس کا عرصہ صرف ہوا ہے، اور امید ہے کہ یہ قارئین کی توقعات پر پورا اُترے گا۔
اس ناول کو عبداللہ حسین کے مشہور کتاب “اداس نسلیں کا تسلسل سمجھا جاتا ہے۔ اس ناول کی کہانی 1897 سے 1974 کے دوران ہونے والے تاریخی واقعات پر مشتمل ہے۔ یہ ایک ایسی قوم کی کہانی ہے جس میں اپنے حقوق کے تحفظ کے لئے لڑنے کا کوئی جذبہ نہیں، جنہوں نے سب کچھ قسمت کا لکھا سمجھ کر قبول کر لیا اور خود کو وقت کے دارے پر چھوڑ دیا۔
یہ کہانی 1947 کے بعد عروج پر پہنچ جاتی ہے جب پاکستان کو آزادی ملتی ہے اور نظریات کے لیے لڑنے والے لوگوں کو اقتدار کی راہداریوں میں رہنے والوں نے دیوار سے لگا دیا تھا۔ ناول میں اُس دور کی بے حسی، مشکلات اور ہنگامہ خیزیوں کو بیان کیا گیا ہے جب پہلی بار غیر جمہوری حکومتوں کے بیج اگائے گئے، اور جو 1971 میں ملک کو دولخت کرنے کی طرف لے جاتی ہیں۔
ناول بتاتا ہے کہ یہ وہ دور تھا جب اگر لوگ سچ کا ساتھ دیتے اور سچائی کو برقرار رکھا جاتا ، اور لوگ اپنے حقوق کے لئےکھڑے ہوجاتے تو پاکستان کی تاریخ اور جغرافیہ کچھ اور ہوتا لیکن چونکہ لوگ خاموش رہے جو کہ گناہ کے مترادف ہے، اس لیے انہیں اس کی اجرت وفاق کو پارہ پارہ ہونے اور اپنے بھائیوں کو کھونے کی صورت میں بھگتنا پڑا۔
نادر لوگ ان لوگوں کی کہانی ہے جو بہت اچھے خیالات رکھتے تھے لیکن جب کھڑے ہونے اور اپنے حقوق کے لئے لڑنے کا وقت آیا تو وہ عمل میں ناکام پائے گئے۔ یہ کتاب بنیادی طور پر پاکستان کے دیہاتی زندگی کا خاکہ ہے ، جہاں پر لوگ اپنے ارد گرد ہونے والی ہر چیز کو اپنی قسمت کے طور پر قبول کرتے ہیں اور چیزوں کو درست کرنے کی کوئی خواہش نہیں رکھتے۔
تقسیم سے پہلے کی کہانی میں سکھوں اور مسلمانوں کے درمیان افہام و تفہیم کو دکھایا گیا ہے ۔ ناول بنیادی طور پر آپ کو بتاتا ہے کہ سچائی بہت اہمیت رکھتی ہے، اور یہ کہ کس طرح ایک پوری کمیونٹی ایک شخص کی ذاتی خواہشات، گناہ آلود خیالات اور نفرت انگیز منصوبوں کے سامنے ہار جاتے ہیں ۔
انہوں نے 1971 کی ہندوستان اور پاکستان کے درمیان جنگ کے واقعات اور اس کے پسِ پشت عوامل کو بھی بیان کیا ہے۔ اس ناول میں ایک فوجی افسر سرفراز کی کہانی پر توجہ مرکوز کی گئی ہے جو مشرقی پاکستان میں تعینات ہوا اور جنگی قیدی بنا اور سقوط ڈھاکہ کے پیچھے اسباب کو ظاہر کرتا ہے۔ اس ناول کے بارے میں سوچا جاتا ہے کہ یہ اُداس نسلیں کا تسلسل ہے جس میں 19ویں صدی کی نسل کی کہانی بیان کی گئی ہے جس میں حقوق اور قوانین کے لیے لڑنے کا کوئی جذبہ نہیں ہے۔ لوگ آزادی کے لیے جدوجہد کرتے اور کھڑے ہوتے ہیں اور آزادی کا جذبہ انھیں لڑنے اور بولنے پر اکساتی ہے۔ تاہم غریبوں کی حالت اور جدوجہد جوں کی توں ہے، وہ خوراک اور رہائش، روزانہ کی کمائی، مقامی حقوق اور پہچان کے لیے لڑی گئی جنگ ہار چکے ہیں۔ قوم جو بہت بڑی افرادی قوت ہیں لیکن پھر بھی طاقت کے ذریعے ان کا استحصال کیا جاتا ہے۔ غربت اور استحصال کا یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔
عبداللہ حسین اپنے نقطہ نظر میں منفرد ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ وہ خالصتاً ادب کی خاطر لکھتے ہیں نہ کہ ایک ادیب یا دانشور کے طور پر اپنی ذاتی عظمت کو ظاہر کرنے کے لیے۔ یہ کتاب ایک مکمل دور، ایک خاندان کی کہانی ہے اور بدلتے وقت اور طبقاتی تبدیلی کے ساتھ ان کے ارتقاء پر مشتمل ہے۔ مصنف نے ملک کے مختلف سماجی و سیاسی منظر نامے پر بڑی نفاست سے روشنی ڈالی ہے۔ اس کتاب میں طنز و مزاح بھی ہے اور المیے بھی ہے۔ ایک عظیم کتاب جو نہ صرف دلچسپ ہے بلکہ اپنے قاری کے وژن کو بھی وسیع کرتی ہے۔
یہ افسردہ کرنے والا ناول پڑھتے ہوئے مجھ لگا کہ جانگلوس، اُداس نسلین اورنادار لوگ ایک ہی پہیلی کے حصے ہیں۔ یہ پاکستانی عوام کی اخلاقی، معاشی، سماجی، ثقافتی اور ذاتی بدعنوانی اور ناامیدی کا معمہ ہے۔ لکھاری اس ناول کے ذریعے ہمیں آئینہ دکھا رہا ہے ، کیونکہ سقوطِ ڈھاکہ کے بعد بھی ہم جوں کے توں ہیں ہم نے ابھی تک کچھ نہیں سیکھا اور جیسا کہ توقع تھی حالات مزید ابتر ہوتے چلے گئے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم ماضی کو یاد رکھتے ہیں، لیکن ہمیں مستقبل کی کوئی فکر نہیں ہے۔ میرے خیال میں ہر پاکستانی کو یہ کتاب ایک بار ضرور پڑھنی چاہیے۔