دوہے از جمیل الدین عالی 255

دوہے از جمیل الدین عالی

کتاب کا نام : دوہے
تحریر: از جمیل الدین عالی

زیر نظر کتاب “جمیل الدین عالی کے دہوں کا مجموعہ ہے۔ دوہا اردو شاعری کا ایسا صنف ہے جس میں ایک شعر دو لائنوں پر مشتمل ہوتا ہے جو اپنے آپ میں مکمل اور کسی اور چیز سے متعلق نہیں ہوتا۔ بنیادی طور پر دوہا ایک دو سطری نظم کو کہتے جسے شاعر عام طور پر اخلاقی سبق کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔
جمیل الدین عالی اردو ادب کی ایک ہمہ جہت اور ہمہ صفت شخصیت ہیں۔ ان کی ہمہ جہت شخصیت کا اظہار زندگی میں بھی کئی سطحوں پر ہوا ہے اور شاعری میں بھی۔ شاعری میں انہوں نے غزلوں ، دوہوں اور گیتوں کے علاوہ نظموں اور ملی ترانوں کو بھی اپنا ذریعہ اظہار بنایا ہے اور ایک طویل نظمیہ بہ عنوان “انسان” بھی لکھا ہے ۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ عالی صاحب بنیادی طور پر غزل کے شاعر ہیں اور خود انہوں نے بھی کہا تھا کہ مجھے اپنی غزل اپنے دوہوں اور گیتوں سے زیادہ عزیز ہیں ۔ مگر ہم کہتے ہیں کہ ان کا مزاج غزل سے کہیں زیادہ گیت اور دوہے سے ہم آہنگ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی تخلیقی شخصیت کا جوہر خاص طور پر دوہے میں کچھ اس آب و تاب کے ساتھ چمکا ہے کہ دوہا ان کے نام سے اور ان کا نام دوہے سے منسوب ہوکر رہ گیا ہے۔
عالی سے پہلے دوہا اردو زبان میں ناپید تو یقناً نہیں تھا لیکن یہ ضرور ہے کہ ان سے پہلے اردو میں نہ تو کوئی قابلِ ذکر دوہا نگار سامنے آیا اور نہ ہی دوہا بطورِ ایک صنفِ سخن کے اردو میں کوئی اعتبار قائم کرسکا۔ یہ اعزاز صرف عالی صاحب کے نصیب میں تھا کہ وہ دوہے کی قدیم صنفِ سخن کو جو ایک مدت سے بے اعتنائی اور بے توجہی کا شکار چلی آرہی تھے ایک نئے رنگ اور نئے آہنگ کے ساتھ ازسرنو زندہ کرکے عوام و خواص تک پہنچائے اور اسے بطور ایک صنف سخن کے ایسا استحکام بخشیں کہ وہ اردو کے اصناف شعری کا حصہ بن جائے۔
بلاشبہ دوہے کو اردوانے کا عمل عالی کا ایک ایسا کارنامہ ہے جو ان کا نام اردو کی ادبی تاریخ میں زندہ رکھنے کے لئے کافی ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ کہنا غلط نہیں کہ دوہا اردو شاعری کو عالی صاحب کی دین ہے۔ اردو میں دوہا نگاری کو رائج کرنے ہی کا نہیں ، فروغ دینے کا کریڈٹ بھی انہی کو جاتا ہے ۔ وہ جدید دور میں اردو دوہے کے بانی ہیں اور اردو دوہے کے حوالے سے انہیں اردو میں رجحان ساز کا درجہ حاصل ہے۔ زندگی کی رنگارنگ تجربات اور جیتے جاگتے احساسات کا جمالیاتی اظہار جس بے ساختگی کے ساتھ ان کے دوہوں میں ہوا اور اس کی وجہ سے ان کے دوہوں میں جو تازگی اور نکھار، جو رنگ اور رس، جو رچاؤ اور بناؤ پیدا ہوا، اس کا تو ایک زمانہ قائل ہے۔ اس پر مستزاد یہ کے انہوں نے دوہے پڑھنے کا جو دل کش انداز نکالا ، اس نے ان کے دوہوں کی تاثیر کو دوآتشہ کرکے ان کی شہرت اور مقبولیت کا دائرہ ہندوستان اور پاکستان سے آگے بڑھا کر امارات، برطانیہ، امریکہ اور کینیڈا تک وسیع کردیا۔ اُن کی دوہا نگاری اور دوہا خوانی کے مقبولِ عام ہونے کے بعد ہی بہت سے دوسرے اردو شعراء بھی دوہا نگاری کی طرف مائل ہوئے۔ اور ان میں سے اکثر و بیشتر نے انہی کے اسلوب و انداز اور انہی کی اختراع کردہ “عالی چال” میں دوہے لکھے۔
اُمید ہے دوہوں کا یہ مجموعہ عالی صاحب کے دوہوں کے شائقین کے ساتھ ساتھ ان پر تحقیقی کام کرنے والوں کے لئے بھی باعث پذیرائی ہوگا۔

یہاں سے ڈاؤنلوڈ کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں