حیات و آثار حضرت میاں محمد عمر چمکنی ؒ 164

حیات و آثار حضرت میاں محمد عمر چمکنی ؒ

حیات و آثار حضرت میاں محمد عمر چمکنی ؒ تحقیق و تالیف ڈاکٹر محمد حنیف، چئیرمین شعبہ دینیات، اسلامیہ کالج پشاور

برصغیر پاک و ہند کی تاریخ شاہد ہے کہ دُنیا کے دیگر ممالک کی طرح یہاں بھی دینِ اسلام کی اشاعت و حفاظت کا سہرا علماء و مشائخ کی مرہونِ منت ہے۔ اُنہوں نے نہ صرف یہ کہ ملک کے گوشے گوشے میں رُشد وہدایت کے چراغ روشن کئے بلکہ ہر دور میں قیادت بھی انہی حضرات نے فراہم کی ۔ اور جب بھی یہاں حمایتِ اسلام کی کوئی تحریک اُٹھی تو اس کے پُشت پر انہی بوریا نشین بزرگانِ دین کا سوز درون کارفرما رہا اور جب کبھی گلشنِ اسلام کو تاراج کرنے کی کوشش کی گئی تو یہی بندگانِ خُدا سینہ سپر ہو کر سامنے آئے اور اندرونی اور بیرونی فتنوں کو دبا کر گلشنِ اسلام کی تازگی کو برقرار رکھا۔
پختونخوا کی تاریخ میں مذہبی اور علمی اعتبار سے حضرت اخوند درویزہؒ بابا، خوشحال خان خٹک اور حضرت میاں محمد عمر چمکنی کے خاندان کو زیادہ شہرت حاصل ہے۔ ان میں سے ہر ایک نے اپنے اپنے نقطہ نظر اور دائرہ کار کے اندر نمایاں کام انجام دئیے۔ مگر حضرت میاں صاحب چمکنیؒ کا ر طرہ امتیاز یہ ہے کہ زندگی کے کسی خاص شعبے کے ساتھ اپنے آپ کو محدود نہیں رکھا بلکہ مذہب، سیاست ، علم و ادب اور رفاہِ عامہ ہر میدان میں نمایاں کردار ادا کیا۔ وہ اہلِ السنۃ والجماعت کے پیروکار عالم، صاحبِ کمال صوفی اور نجیب الطرفین پزرگ تھے۔
اللہ تعالیٰ نے بارھویں صدی ہجری میں دینِ اسلام کی خدمت کے لئے سرزمینِ ہند میں جس طرح ولی اللہ خاندان کو منتکب فرمایا تھا اِ س طرح یہ کام سرزمینِ سرحد میں حضرت میاں صاحب چمکنی کے خاندان کے حصے میں آیا۔
اُس زمانے میں خادمِ دین کی حیثیت سے یہاں جن بزرگوں کا نام لیا جاسکتا ہے اور ان میں حضرت میاں صاحب چمکنی ؒ بہت اہم اور نمایاں حیثیت کے مالک ہیں۔ اُن کا نام محمد عمر، والد بزرگوار کا نام ابراہیم اور دادا کا نام کلا خان تھا۔ پشاور شہر سے مشرق کی جانب سات میل دور واقع ایک گاؤں “چمکنی” میں سکونت کی مناسبت سے “میاں صاحب چمکنی” کے نام سے مشہور تھے۔ وہ نسباً افغانی، مولدًا فریدآبادی، مسکناً پشاوری، مذہباً حنفی، طریقتہً نقشبندی، استفادۃً اویسی اور مشرباً محمدی تھے، اور صوبہ سرحد کے شمال میں واقع قبائلی علاقہ “باجوڑ” میں آباد سڑ بنی افغانوں کی “شیخی خیل” شاخ کے مشہور قبیلہ “ترکانی” کی “ایسوزئی” شاخ کے موسیٰ خیل خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ اُن کے دادا کلاخان باجوڑ سے ہجرت کرکے لاہور میں دریائے راوی کے کنارے آباد بھٹی قبیلہ کے قدیم موروثی شہر فریدآباد میں رہائش پزیر ہوئے اور اسی جگہ پر 1673ء میں میاں عمرؒ کی پیدائش ہوئی تھی۔ اپنے والد ابراہیم خانؒ کی وفات کے بعد اپنے نانا کے پاس پشاور کے نزدیک واقع گاؤں “چمکنی” میں مستقل طور پر آباد ہوگئے۔
زیرِ نظر کتاب انہی بزرگ اور باکمال صوفی کی مکمل تاریخ ، خاندانی پس منظر اور برصغیرِ پاک و ہند میں دینِ اسلام کی اشاعت و ترویج کے لئے اُن کی خدمات پر مختصر مگر جامع انداز میں روشنی ڈالتی ہے۔

یہاں‌سے ڈاؤنلوڈ کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں