آہنکار ناول از نورالحسنین

ناول “آہنکار” از نورالحسنین

نورالحسنین کا ناول “آہنکار” اردو فکشن میں ایک اہم تخلیق کے طور پر سامنے آتا ہے، جو نہ صرف عصری زندگی کے مسائل اور انسانی رشتوں کی پیچیدگیوں کو اجاگر کرتا ہے بلکہ فنی سطح پر بھی ایک عمدہ مثال قائم کرتا ہے۔ یہ ناول کہانی نگاری کے اعلیٰ اصولوں اور فنکارانہ لوازمات پر پورا اترتا ہے۔ اس میں جہاں کہانی، کردار اور منظرنامے کی بھرپور موجودگی ہے، وہیں اسلوب، علامتوں اور تکنیکی مہارت کا شاندار امتزاج بھی موجود ہے۔

“آہنکار” ایک ایسے شخص کی داخلی اور خارجی کشمکش کو بیان کرتا ہے جو مادی وسائل کی کمی کے باعث اپنی بیوی کے بروقت علاج میں ناکام رہتا ہے، اور اس کی موت کے بعد جرم، پچھتاوے، ایذا پسندی، اور ضمیر کی خلش میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ یہ صرف ایک فرد کی کہانی نہیں بلکہ آج کے انسان کی کہانی ہے، جو ترقی اور مادیت کے پیچھے دوڑتے ہوئے رشتوں اور انسانی قدروں کو نظرانداز کر بیٹھا ہے۔

مرکزی کردار سمپت راؤ ایک پیچیدہ شخصیت ہے، جس کی خارجی حرکات بعض اوقات اسے ایک منفی کردار بنا دیتی ہیں، لیکن اُس کا باطنی انسان مسلسل ضمیر کی خلش کے ساتھ زندہ رہتا ہے۔ اس کے مقابلے پر “کڑ وبا” کا کردار ایک سادہ، دیہی زندگی اور فطری معصومیت کی علامت ہے، جو سمپت راؤ کے ضمیر کو جگانے کا باعث بنتا ہے۔ ان دونوں کے بیچ ایک فکری اور اخلاقی کشمکش ابھرتی ہے جو قاری کو مسلسل تجسس میں رکھتی ہے۔

نورالحسنین نے ناول میں “فلیش بیک اور فلیش فارورڈ” کی تکنیک نہایت مہارت سے استعمال کی ہے، جو نہ صرف کہانی کے تسلسل کو باندھے رکھتی ہے، بلکہ قاری کو ماضی اور حال کے درمیان آنے جانے کی سہولت بھی فراہم کرتی ہے۔ کہانی ایک گرہ کی مانند ہے، جو رفتہ رفتہ کھلتی جاتی ہے اور بالآخر قاری کو ایک مکمل منظرنامہ فراہم کرتی ہے۔

ناول کا منظرنامہ ایک الگ کردار کی طرح سامنے آتا ہے۔ دیہی ہندوستان کا ماحول، زبان، ثقافت، اور رہن سہن ناول میں اس مہارت سے پیش کیا گیا ہے کہ وہ قاری کو نہ صرف اس دنیا کا حصہ بنا دیتا ہے بلکہ اسے ایک زندہ، سانس لیتی ہوئی حقیقت میں بدل دیتا ہے۔

نورالحسنین کی فنکارانہ خوبیوں میں سے ایک اہم خوبی ان کی علامتی اور استعاراتی زبان ہے۔ اُن کے استعارے اور علامتیں پہلی سطح پر تو بہت سادہ معلوم ہوتی ہیں، لیکن جوں جوں کہانی آگے بڑھتی ہے، ان کی معنویت کے پرت کھلتے چلے جاتے ہیں۔ مثلاً، سمپت راؤ کی مرحوم بیوی اس کے ضمیر کی خلش بن کر ابھرتی ہے، جو ہر غلط قدم پر اسے جھنجھوڑتی ہے۔

“آہنکار” صرف ایک کہانی نہیں، بلکہ ایک فکری اور سماجی مکالمہ ہے جو آج کے قاری کو خود سے روبرو کرتا ہے۔ یہ ناول ہمیں بتاتا ہے کہ:

* مادی ترقی انسانی خوشی کی ضامن نہیں؛
* انسانی رشتے ہی اصل زندگی کی بنیاد ہیں؛
* ضمیر کی آواز اور انسان کی اندرونی بیداری ہی انسان کو حیوانیت سے بچا سکتی ہے۔

“آہنکار” ایک ایسا ناول ہے جو اپنی فکری گہرائی، فنی پختگی، علامتی نظام، اور کرداروں کی نفسیاتی پیچیدگی کے باعث اردو ادب میں ایک خاص مقام رکھتا ہے۔ یہ نہ صرف ایک مکمل ادبی تجربہ ہے بلکہ قاری کے دل و دماغ کو جھنجھوڑ دینے والی تحریر بھی ہے۔ نورالحسنین نے اپنی سادگی، پرکاری اور فنکارانہ مہارت سے ایک ایسی تخلیق پیش کی ہے جو دیرپا اثر چھوڑتی ہے۔

Leave a Comment