تاریخ فرشتہ مکمل دو جلدیں از محمد قاسم فرشتہ
تاریخ فرشتہ ہندوستان کی مکمل تاریخ ہے جسے محمدقاسم فرشتہ نے لکھا ہے اور عبدالحی خواجہ نے ترجمہ کیا ہے۔ تاریخ فرشتہ اپنی شہرت کی وجہ سے کسی تعارف کا مختاج نہیں۔ یہ ہندوستان کی ضخیم ترین تاریخ ہے جو دو جلدوں اور تقریباً دو ہزار صفحات پر مشتمل ہے۔ اس تاریخ میں ہندوستان کے مسلم دورِ حکومت اور اس کی سیاسی ، معاشی اور جغرافیائی حالات تفصیل سے بیان کئے گئے ہیں۔
تاریخ ، تہذیب و تمدن کا ایک ایسا آئینہ ہوتاہے ، جس میں انسانیت کے خدوخال اپنی تمام خوبیوں اور خامیوں کے ساتھ بڑی وضاحت سے اجاگر ہوتے ہیں۔ انسانی تہذیب نے خوب سے خوب تر کی تلاش میں جو ارتقائی سفر طے کیا اور جن وادیوں اور منزلوں سے یہ کاروانِ رنگ و بو گزرا ہے، ان کی روداد جب الفاظ کا پیکر اختیار کرتی ہے تو “تاریخ” بن جاتی ہے۔ لیکن تاریخ ماضی کے واقعات کو صرف دہرا دینے ہی کا نام نہیں بلکہ ماضی کی بازیافت کا فن ہے۔ ظاہر ہے کہ کچھ مخصوص افراد کے نام گنوا کر یا کچھ چیدہ شخصیتوں کے حالات لکھ کر عہدِ گزشتہ کو زندہ نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ واقعات کے اسباب و نتائج کو گہری نظر سے دیکھا جائے، اور اجتماعی زندگی کی ان قدروں کا جائزہ لیا جائے جو اقوام و ملل کے عروج و زوال سے گہرا تعلق رکھتی ہے۔
مورخ کا کام صرف اتنا ہی نہیں کہ وہ اپنے پیشرو مورخین کے بیانات ” اندازدیگر” سے پیش کردے، بلکہ اسے سیاسی ، معاشی اور جغرافیائی حالات کے فکری تجزیے سے اسباب و واقعات اور ان کے اثرات کی ایک ایسی تصویر پیش کرنی پڑتی ہے جو ماضی کے ہر پہلو کا احاطہ کئے ہوئے ہو۔ تاریخ کا دیگر معاشرتی علوم سے بہت گہرہ تعلق ہے۔ ایک مورخ کے لئے ضروری ہے کہ وہ تمام معاشرتی علوم، اور علومِ تاریخ سے ان کے تعلق پر گہری نظر رکھتا ہو۔
اگر ہم تاریخ نگاری کے فن کا جائزہ لیں تو ہمیں واضح طور پر نظر آئے گا کہ ابتداء میں تاریخ کا مفہوم یہ تھا کہ کچھ نمایاں افراد کے حالاتِ زندگی لکھ دئیے جائیں۔ کسی ملک کی تاریخ یوں لکھی جاتی تھی کہ وہاں کے سلاطین کا یکے بعد دیگرے تذکرہ کردیا جاتا تھا۔ اور حالات و واقعات اور ان کے اسباب و نتائج کے باہمی تعلق اور اجتماعی زندگی کی تصویر کشی کو بالکل نظرانداز کردیا جاتا تھا۔ رفتہ رفتہ یہ اندازِ نظر متروک ہوتا گیا اور تاریخ اجتماعی زندگی کی داستان بنتی گئی۔
تاریخ کے بارے میں بے شمار نظریات ہیں۔ ہر مورخ نے اپنا نظریہ تاریخ جداگانہ طور پر بیان کیا ہے۔ لیکن ایک حقیقت ان تمام نظریات کے پسِ پردہ کارفرما ہے، کہ تاریخ سچائی کے رُخ سے نقاب نہیں اُٹھاتی تو وہ محض داستان طرازی ہے۔ یعنی حقیقت کو تلاش کرنے کا جذبہ ہی تاریخ اور قصص و حکایات میں فرق پیدا کرتا ہے۔
علمِ تاریخ سے ہر دور میں دلچسپی لی گئی ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ انسان کو ہمیشہ اپنے ماضی سے لگاؤ رہا ہے۔ وہ اپنے پیچھے پھیلے ہوئے لامتناہی ارتقائی راستوں کی طرف مُڑ کر دیکھنا پسند کرتا ہے۔ کیونکہ ہر گزرا ہوا لمحہ اور اس سے وابستہ یادیں عزیز ہی نہیں ہوتیں بلکہ متاعِ حیات کا درجہ رکھتی ہیں۔ ماضی کا مطالعہ حال کو سمجھنے اور مستقبل کو بہتر بنانے میں بڑی مدد دیتا ہے۔ گزرے ہوئے زمانے کو فراموش کرکے حال و مستقبل کو سازگار بنانا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے۔
تاریخ کے مطالعہ کا دوسرا بڑا فائدہ یہ ہے کہ یہ علم سیاسی شعور کی بیداری میں بڑی مدد دیتا ہے۔ آج کی دُنیا میں جمہوریت کی مقبولیت نے ہر فرد پر بڑی ذمہ داریاں ڈال دی ہیں۔ وہ اب اپنے حکمرانوں کا انتخاب خود آپ ہی کرتا ہے۔ گویا تاریخ کی تشکیل میں وہ اہم خدمت انجام دیتا ہے۔ عہدِ حاضر کے شہری کے لئے ضروری ہے کہ وہ گزشتہ ادوار کی تاریخ کو سامنے رکھے اور اس کے گہرے مطالعہ کے بعد کسی نتیجے پر پہنچے۔ ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں علمِ تاریخ اس کے سیاسی شعور کی نشونما میں بہت زیادہ حصہ لے گا۔ تاریخ کا مطالعہ ہر باشعور شہری کے لئے ضروری ہے ۔ اس سے نگاہ میں وسعت اور ذہن میں کشادگی پیدا ہوتی ہے۔ ایک شہری اور علمِ تاریخ کے درمیان شاگرد اور استاد کا رشتہ ہوتا ہے۔ تاریخ بہت کچھ سکھاتی ہے۔ یہ قوموں کے عروج و زوال کی دستان بھی ہوتی ہے اور انسانیت کے کاروان کی رودادِ سفر بھی۔ یہ ثقافتی اور تہذیبی عوامل کو بے نقاب کرکے ماضی ، حال اور مستقبل کے تعلق کو مضبوط سے مضبوط تر بناتی ہے۔
ہندوستان میں مسلم عہدِ حکومت کی بہت سے تاریخیں لکھی گئی ہیں۔ البیرونی سے لے کر دورِحاضر تک بہت سے مورخوں نے ماضی کے لمحوں کو صفحہ قرطاس پر منتقل کرنے کی کامیاب کوششیں کی ہیں۔ تاریخ فرشتہ ایسی ہی کامیاب اور اہم کوششوں میں سے ایک ہے۔
محمدقاسم فرشتہ کے حالاتِ زندگی پر دبیز پردے پڑے ہوئے ہیں۔ یہ وہ عظیم مورخ ہے جس نے زیرِ نظر تاریخ لکھ کر بہت سے گمناموں کو حیاتِ دوام بخش دی ہے، لیکن وہ اپنے بارے میں کچھ زیادہ کھل کر نہ لکھ سکا۔ اس نے اپنی تالیف میں کہیں کہیں ایسے اشارے ضرور کئے ہیں جن سے اس کے حالاتِ زندگی پر تھوڑی بہت روشنی پڑتی ہے۔ لیکن ان اشاروں سے مکمل داستانِ حیات مرتب نہیں کی جاسکتی۔
فرشتہ کا پورا نام مُلا محمدقاسم ہندوشاہ ہے، اور تخلص “فرشتہ” ہے۔ ” ہندوشاہ” کی اصل کیا ہے؟ اس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ اس کے باپ کا نام مولانا غلام علی ہندوشاہ تھا۔ بیٹے کی طرح باپ کے حالات بھی پردہ اخفا میں ہیں۔ فرشتہ کے بعض بیانات سے معلوم ہوتا ہے کہ مولانا غلام علی شاعر تھے۔
فرشتہ کا آبائی وطن استرآباد ہے۔ جہاں وہ 1552ء میں پیدا ہوا۔ بچپن ہی میں وہ احمدآباد آگیا، جہاں اس نے شاہی خاندان کے افراد کے ساتھ تعلیم حاصل کی۔ جب وہ جوان ہوا تو مرتضیٰ نظام شاہ کے حلقہ ملازمین میں شامل ہوگیا۔ حسین نظام شاہ ثانی کے قتل کے بعد وہ بیجاپور چلا گیا اور ابراہیم عادل ثانی کی ملازمت اختیار کرلی۔ یہاں اس نے سب سے پہلے “اختیاراتِ قاسمی” کے نام سے طب سے متعلق ایک کتاب لکھی۔ فرشتہ اگرچہ ملکی مہمات میں زیادہ مشغول رہتا تھا، لیکن لوگ اس کی علمی صلاحیتوں سے ناواقف نہیں تھے۔ ابراہیم عادل شاہ ثانی بڑا علم دوست فرمانروا تھا۔ اسے جب فرشتہ کی علمی صلاحیتوں اور خاص کر علمِ تاریخ سے دلچسپی کا حال معلوم ہوا تو اُس نے فرشتہ کو ہندوستان میں اسلامی عہدِ حکومت کی تاریخ لکھنے کا حکم دیا۔ فرشتہ نے پہلے تو انکساری سے کام لیا اور کہا کہ وہ اس خدمت کو بجا لانے کا اہل نہیں ہے لیکن ابرہیم نے اس عذر کو تسلیم نہ کیا اور برابر اصرار کرتا رہا۔
فرشتہ کے ذہن میں یہ خیال تھا کہ اگر بادشاہ کے کہنے سے کوئی تاریخ لکھی گئی تو یقیناً اس میں حالات و واقعات کو اس انداز سے لکھنا پڑے گا کہ جس سے بادشاہ کی ناراضگی کا خطرہ پیدا نہ ہو۔ فرشتہ کو یہ بات کسی طرح قبول نہ تھی ۔ اس کے جذبہ انکسار کے پسِ پردہ یہی خیال کرفرما تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ مورخ کی حیثیت سے وہ جو کچھ لکھے وہ حقیقت کی صحیح تصویر ہو اور اس میں کسی مصلحت کو دخل نہ ہو۔
جب بادشاہ کا اصرار حد سے بڑھا تو اس نے مجبور ہو کر قلم اُٹھایا اور نمونے کے چند اوراق لکھ کر بادشاہ کی خدمت میں پیش کئے۔ ان اوراق میں اس نے عمداً ابراہیم کے باپ علی عادل شاہ اول کے حالات لکھے اور اس کے قتل کے شرمناک واقعے کو بلا کم و کاست بیان کردیا۔
فرشتہ کی یہ جسارت قابلِ ستائش تھی۔ ابراہیم اگر چاہتا تو وہ ان اوراق کو پڑھ کر فرشتہ کو قتل کرواسکتا تھا، کیونکہ اُس نے ان اوراق میں ابراہیم کے بارے میں وہ سب کچھ صاف صاف لکھ دیا تھا جسے سب جانتے تھے لیکن زبان پر کوئی نہ لاتا تھا۔ اور پھر یہ بات بھی ایسی تھی کہ جسے باپ سے محبت کرنے والا کوئی باغیرت بیٹا برداشت نہ کرسکتا تھا۔
ابراہیم نے ان اوراق کو پڑھا اور اپنے باپ کی محبت سے زیادہ فرشتہ کی حقیقت نگاری کو ملحوظِ خاطر رکھا اور اس کی اس روش کو سراہا، اور اسے حکم دیا کہ وہ ایسی ہی جرات سے تاریخ لکھنے کا کام شروع کردے۔ اس واقعہ سے جہاں ایک طرف فرشتہ کی بیباکی اور حق گوئی کا اندازہ ہوتا ہے، وہیں دوسری طرف ابراہیم کی منصف مزاجی کا بھی پتہ چلتا ہے۔ ابرہیم عادل شاہ ثانی کی عہدِ حکومت کے واقعات فراموش ہوچکے ہیں لیکن اُس کا یہ کارنامہ کہ اُس نے فرشتہ سے تاریخ لکھوائی، اُس کے نام کو ہمیشہ زندہ رکھے گا۔
فرشتہ نے یہ تاریخ 1606ء سے لکھنی شروع کی اور پانچ سال کی محنتِ شاقہ کے بعد 1611ء میں اسے مکمل کیا۔ فرشتہ بہت ہی محنتی اور صاحبِ شعور مورخ تھا۔ اُس نے اپنی تاریخ لکھنے سے پہلے تمام تاریخ مواد جو اسے دستیاب ہوسکا ،کا مطالعہ کیا۔ اسن بتیس تاریخی کتابوں سے استفادہ کرکے “تاریخ فرشتہ” کو مکمل کیا۔ فرشتہ نے کتاب کے مقدمے میں اور دیگر ابواب میں بھی اپنے ماخذات کا تذکرہ کیا ہے۔
جیسا کہ اصل کتاب کے مطالعہ سے معلوم ہوگا کہ “تایخ فرشتہ” مقدمے کے علاہ بارہ حصوں پر مشتمل ہے۔ پہلے گیارہ حصوں میں لاہور، دہلی، دکن، گجرات، مالوہ، خاندیش، بنگال، جونپور، ملتان، سندہ، سمیر اور مالابار کے سلاطین کا تذکرہ ہے۔ اور بارہویں حصے میں ہندوستان کے صوفیائے کرام کے حالات ہیں۔ زیرنظر ترجمے میں یہ حصہ حذف کردیا گیا ہے کیونکہ اپنے موضوع کے لحاظ سے یہ حصہ باقی کتاب سے مختلف ہے۔
فرشتہ نے ہر طرح سے اپنی تالیف کو جامع بنانے کی کوشش کی ہے۔ اس نے اپنے پیشرو مورخین کے بیانات سے خوشہ چینی کرنے کے ساتھ ساتھ بعض جگہ اپنے مشاہدات کو بھی قلم بند کیا ہے۔ نیز جہاں کوئی ماخذ نہیں ملا تو اس نے مختلف لوگوں کے بیانات کو اپنا ماخذ بنایا ہے۔ مثلاً بریدشاہی خاندان کے سلاطین کے حالات اسے کسی کتاب میں نہ ملے تو اُس نے بڑے بوڑھوں سے رجوع کیا اور اُن سے پوچھ گچھ کرکے اس خاندان کے حالات درجِ کتاب کئے۔
فرشتہ نے یہ تاریخ اگرچہ بڑی احتیاط سے لکھی ہے تاہم اس میں بعض فروگزاشتیں ہوگئی ہیں جن کا فرشتہ کو خود بھی احساس ہے۔ اس نے اپنی کتاب میں جا بجا پڑھنے والوں سے درخواست کی ہے کہ انہیں جہاں کوئی غلطی نظر آئے اس کی تصحیح کردیں۔ فرشتہ سے جو غلطیاں ہوئی ہیں ان کا بڑا سبب فرشتہ کی جغرافیہ سےکم واقفیت اور نقادانہ صلاحیت کی کمی ہے۔ اگر چہ اُس نے بادشاہوں کی خوبیوں کے ساتھ ساتھ ان کی خامیوں کا بھی تذکرہ کیا ہے، تاہم وہ بعض جگہ توازن قائم نہیں رکھ سکا۔ بحیثیتِ مجموعی “تاریخ فرشتہ” ایک اہم تاریخی دستاویز ہے۔ ہندوستان میں اسلامی عہدِ حکومت کا مطالعہ کرنے والے اسے کسی طرح نظر انداز نہیں کرسکتے۔
اردو میں تاریخ فرشتہ کے دو ترجمے ہوچکے ہیں۔ ایک تو ” نول کشور” پریس لکھنو سے شائع ہوا تھا اور دوسرا “دارالترجمہ” حیدرآباد سے۔ یہ دونوں ترجمے لفظی ہیں۔ ان میں بس اتنا کیا گیا ہے کہ فارسی اسماء و افعال کی جگہ اردو اسماء و افعال کو دی گئی ہے۔ اور بعض جگہ اس کی بھی ضرورت نہیں سمجھی گئی۔ جملوں کی ساخت بھی فارسی انداز کی ہے۔ اردو کے مزاج کو ملحوظِ خاطر نہیں رکھا گیا۔ ان وجوہ سے اردو خواں طبقہ ان ترجموں سے پوری طرح مستفید نہیں ہوسکتا۔ صرف وہی لوگ استفادہ کرسکتے ہیں جو فارسی زبان کے ماہر ہیں۔ ظاہر ہے جو فارسی زبان کا ماہر ہوگا وہ ترجمہ کیوں پڑھنے لگا۔ وہ اصل کو بہرحال ترجیح دے گا اور اس سے استفادہ کرےگا۔
زیرِ نظر ترجمے کو عبدالحی خواجہ نے ہر اعتبار سے موجودہ زمانے کے اندازِ نگارش سے قریب کرنے کی کوشش کی ہے۔ اور اس طرح کہ اصل کتاب کے مفاہیم و مطالب میں سرموفرق نہیں آنے دیا۔ جابجا حواشی بھی دئیے گئے ہیں۔ جن میں قدیم شہروں اور دریاؤں کے موجودہ نام اور ان کے جغرافیائی حالات بھی درج کئے ہیں۔ فرشتہ سے جہاں کہیں کسی تاریخی یا جغرافیائی صورتِ حال کے بارے میں غلط بیانی ہوگئی ہے وہاں اس کی حتی الامکان حاشیے میں تصحیح بھی کردی گئی ہے۔
تاریخ فرشتہ جلد اول
تاریخفرشتہ جلد دوم