تاریخ یعقوبی اردو ترجمہ مکمل دو جلدیں از احمد بن ابی یعقوب
تاریخ یعقوبی ایک مستند اور جامع اسلامی تاریخ ہے جس میں حضرتِ آدم ؑ سے لیکر 872 ء تک یعنی حلافتِ عباسیہ کے اٹھارویں حلیفہ تک کی تاریخ مرتب کی گئی ہے۔ اصل کتاب عربی زبان میں ہے جس کا یہ اردو ترجمہ مشہور مترجم و عالم مولانا اختر فتح پوری نے کیا ہے۔
اسلامی تاریخ وہ روح پرور موضوع ہے ، جس کو ضبطِ تحریر میں لانے کا آغاز دورِ اسلام کے ابتدائی دور سے ہی ہوگیا تھا، اور اب تک یہ سلسلہ جاری ہے ، اور آئندہ بھی جاری رہے گا۔ سب سے پہلے اس موضوع پر عربی میں کتابیں لکھی گئیں اور پھر مختلف زبانوں میں ان کے تراجم کا سلسلہ چلا۔ بعد ازاں انگریزی اور اردو میں کتابیں لکھی گئیں۔ علاوہ ازیں چینی، جاپانی، فرانسیسی، روسی، فارسی، ترکی، ہندی، بنگلہ، مرہٹی، سندھی، بلوچی، پشتو، پنجابی، عرض دنیا کی بے شمار ملکی اور علاقائی زبانوں میں اسلامی تاریخ پر لکھا گیا۔ اس کی ابتدا مسلمانوں نے کی تھی، لیکن اس کے بعد ہر مذہب کے اہلِ علم نے اس موضوع پر طبع آزمائی کی اور حقیقت یہ ہے کہ جس نے جو کچھ لکھا، اپنی تحقیق کے مطابق لکھا۔ کسی نے نبی کریم ﷺ کی سیرتِ طیبہ کی وضاحت کی ، کسی نے اسلام کے جنگ و جہاد کے گوشوں کو اجاگر کیا، کسی نے دینِ حق کے اصلاحی اور اخلاقی نقطہ نظر کی صراحت کی، کسی نے اس کے معلمانہ حصوں کو موضوعِ فکر ٹھہرایا، کسی نے حدیثِ رسول ﷺ کے راویوں کی تفصیلات بیان کیں اور کسی نے اسلام اور مسلمانوں کے اندر تبلیغ کو ہدفِ بحث قرار دیا۔
پھر کسی مصنف نے اس کے کسی پہلو کی تعریف کی ، کسی نے ناقدانہ نگاہ ڈالی اور کسی نے تنقیص و تردید کی۔ ہر شخص کا اپنا اسلوبِ بیان ، اپنا مطالعہ، اپنی سوچ اور اپنا نہجِ کلام ہے۔ اس موضوع کی بے شمار کتابوں میں سے اس وقت ہم صرف ایک کتاب کا چند الفاظ میں تعارف کرانا چاہتے ہیں اور وہ کتاب ہے “تاریخ الیعقوبی”۔ اس کتاب کے مصنف احمد بن ابی یعقوب بن جعفر بن وہب بن واضح الکاتب العباسی ، معروف بہ یعقوبی ہے۔
یعقوبی عباسی دور کے معروف مورح ، جغرافیہ دان اور مصنف تھے۔ ان کے والد خلیفہ منصور عباسی کے ایک آزاد کردہ غلام “واضح” کی اولاد سے تھے اور اسی وجہ سے خاندان عباسی کہلاتا تھا۔ آلِ طاہر کے زوال کے بعد یعقوبی مصر چلے گئے تھے۔ وہاں انہوں نے 891ء میں “کتاب البلدان” لکھی جو جغرافیے کی کتاب ہے۔ کتاب البلدان انہوں نے مختلف کتابوں کے مطالعے اور متعدد سیاحوں سے معلومات حاصل کرکے قلم بند کی۔ اسے وہ بغداد اور سامرا کے بیان سے شروع کرتا ہے اور پھر ایران، توران اور شمالی افغانستان سے متعلق تفصیلات بیان کرتے چلے جاتے ہیں۔ علاوہ ازیں کوفہ اور مغربی عرب کے بارے میں بھی اس میں معلومات درج ہیں۔ فتوح البلدان کے جس حصے میں ہندوستان ، چین اور بوزنطی مملکت کے متعلق بیان کیا گیا تھا، وہ حصہ ضائع ہوگیا ہے۔
واقعات کے بیان میں یعقوبی محتاط مصنف ہیں۔ وہ جو کچھ لکھتے ہیں اختصار مگر جامعیت کے ساتھ لکھتے ہیں۔ اس اعتبار سے “تاریخ یعقوبی” ان کی ایک اہم کتاب ہے اور بے شمار معلومات پر محیط ہے۔ انہوں 897ء میں وفات پائی۔
تاریخ یعقوبی جو اس وقت ہمارے زیرِ مطالعہ ہے ، دو جلدوں میں منقسم ہے اور دوسری جلد پہلی جلد سے ضخامت میں تقریباً دو گنا ہے۔ پہلی جلد کا آغاز حضرت آدمؑ سے ہوتا ہے۔ اس کے بعد حضرت مسیحؑ تک انبیائے بنی اسرائیل کا ذکر چلتا ہے۔ حضرت مسیح کے حواریوں کا تذکرہ بھی کتاب میں موجود ہے۔ بعد ازاں سریانی بادشاہوں،پھر موصل اور نینویٰ کے حکمرانوں اور پھر شاہانِ بابل کا تذکرہ ہے۔ اس کے بعد ہندوستانیوں، یونانیوں اور شمالی علاقوں کی قوموں کا ذکر کیا گیا ہے۔
کتاب کی دوسری جلد نبی کریم ﷺ کی ولادت سے شروع ہوتی ہے اور اس میں 872ء تک کی اسلامی تاریخ مرقوم ہے۔ چونکہ مصنف کو نجوم و علمِ فلکیات سے بھی شغف تھا، اسلئے وہ جس حکومت کے زمانے کا تذکرہ کرتے ہیں اس کے آغاز میں بروج و کواکب کا بھی نقشہ کھینچتے ہیں۔ مندرجات و مضامین کے اعتبار سے کتاب بے حد دلچسپ اور بہت سے معلومات پر مشتمل ہے۔ مصنف کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے صاف ستھرے انداز اور سادہ اسلوب میں اپنے زمانے تک کی پوری تاریخ منضبط کردی ہے۔
مصنف احمد بن یعقوب وسیع النظر مورخ ہیں اور اپنے عہد کے تمام ملکوں کے حالات سے آگاہ ہیں۔ ان کے مذہبی اور معاشرتی معاملات کا بھی انہیں علم ہے۔ ہندوستان کے بارے میں جس میں موجودہ جغرافیے کے اعتبار سے پاکستان اور بنگلہ دیش بھی شامل ہیں، وہ لکھتے ہیں کہ یہ برہمنوں کا ملک ہے اور یہی لوگ اس کے اصل حکمران ہیں۔ یہ لوگ بت پرست ہیں اور اس طویل و عریض ملک کے مختلف گوشوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔ اگرچہ برہمنوں کے علاوہ بھی لوگ یہاں آباد ہیں، مگر ان کا دعویٰ ہے کہ سب سے معزز یہی لوگ ہیں باقی سب لوگ ان کے مقابلے میں ہیچ اور پسماندہ ہیں۔
یعقوبی کی تحقیق کے مطابق شاہانِ ہند میں پہلا بادشاہ جس کی ہر بات کو تسلیم کیا جاتا تھا، برہمن تھا اور اسی نے اس نواح میں سب سے پہلے نجوم کے بارے میں اظہارِ حیال کیا۔ ہند کے علاوہ کتاب میں وہ سندھ کا ذکر بھی کرتے ہیں۔ کتاب کا یہ باب برصغیر کے قارئین کے لئے خاص طور پر نہایت دلچسپ ہے۔
ملوکِ ہند سے متصل اہلِ یونان کا تذکرہ ہے۔ ابتدا میں یونانی حکما و فلاسفہ کے بارے میں خاصی تفصیلات دی گئی ہیں اور اس موضوع سے متعلق ان کی خدمات کا ذکر کیا گیا ہے، مثلاً طب، ریاضی، علمِ فلکیات و نجوم، طلسمات و آلات وغیرہ کے سلسلے میں اُن کی کاوشوں کو اُجاگر کیا گیا ہے ، اور موضوع پر جس یونانی فلسفی اور حکیم نے جو کچھ تحریر کیا اور جس انداز سے کیا ، اس کی وضاحت کی گئی ہے۔ یونانی حکماء نے متعدد امراض کا ذکر کیا ہے اور بتایا ہے کہ بچوں، جوانوں، بوڑھوں اور عورتوں کو کس قسم کی بیماریاں لاحق ہوتی ہیں اور کس عمر اور کس موسم میں کون کون سی بیماریاں ان پر حملہ آور ہوتی ہیں۔ کسی کو بخار ہوگیا، کوئی پیٹ کی کسی تکلیف میں مبتلا ہوگیا، کسی کو کان، آنکھ، دانت اور ناک وغیرہ کے مرض نے گھیر لیا۔
کتاب کے اس باب میں اس موضوع کے تمام پہلوؤں کو معرضِ تحریر میں لایا گیا ہے۔ اس کے ساتھ میں بقراط، فیثاغورس، افلاطون اور سقراط وغیرہ یونانی حکماء و فلاسفہ کی علمی سرگرمیوں کو ضبطِ کتابت میں لایا گیا ہے۔ نیز مختلف موضوعات سے متعلق بعض حکماء و فلاسفہ کی باہمی مباحث کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔ اس باب کے مطالعے میں یونانی فلسفیوں کی پوری علمی تگ و تاز ، نظر و بو کے زاویوں میں آجاتی ہے۔
اس کے بعد یونانی اور رومی ملوک کا ذکر آتا ہے۔ مصنف کا بیان ہے کہ اہلِ یونان کے بادشاہ یونان بن یافث بن نوح کی اولاد سے تھے۔ انہی کی اولاد میں سکندر بادشاہ تھا، جسے ذوالقرنین کہا جاتا ہے۔ اس کی ماں کا نام ومفیدا تھا اور اس کا استاد ارسطاطالیس حکیم تھا۔ مصنف کا بیان ہے کہ سکندر نہایت تیز ذہن، عالی فکر اور جاہ و جلال کا بادشاہ تھا۔ اس کے برسرِ اقتدار آنے سے قبل یونان کے بادشاہ اپنے آپ کو کم زور سمجھتے تھے اور بابل کے بادشاہوں کے جو فارس سے تعلق رکھتے تھے، باج گزار تھے۔ سکندراعظم کی وفات اور اس کی تجہیز و تکفین کا وقعہ بہت دلچسپ ہے۔ مرتے وقت اُن نے اپنی ماں کو جو وصیت کی، وہ بھی لائقِ مطالعہ ہے۔ اس کے بعد یونان پر جن لوگوں نے حکومت کی ، اُن کا مختصر الفاظ میں تذکرہ کیا گیا ہے۔ کتاب کے اس باب کے واقعات نہایت دردناک ہیں۔
قرآن مجید میں اصحابِ کہف کا جو واقعہ بیان کیا گیا ہے اس کے بارے میں مصنف نے لکھا ہے کہ اصحابِ کہف یعنی جو افراد پہاڑی کے غار میں چھپ گئے تے، ان کے نام یہ تھے: مکسلجان، مراطوس، شاہ بونبوش، نطرنوش، دواس، نوالس، کنفرطو اور سوطر تھے، اور ان کے کتے کا نام قطمیر تھا اور کتے کے نگران کا نام ملیخا تھا۔ مصنف نے یہ واقعہ اگرچہ مختصر الفاظ میں لکھا ہے، مگر اس اختصار میں پورا واقعہ آگیا ہے۔
اس کے بعد “ملوکِ فارس” کا باب آتا ہے، جس میں فارس یعنی ایران کے بادشاہ کا ذکر کیا گیا ہے۔ ان بادشاہوں میں فارس کی پہلی مملکت کے شیومرث، طہمورت، جمشاد، زوطہماسب، کیخسرو، کیقباد اور کیکاؤس وغیرہ شامل ہیں۔ پھر اس کی دوسری مملکت کا ذکر ہے، اس میں سابوربن اردشیر، بہرام بن مہرمز، بہرام بن بہرام، ہرمز بن فرسی، یزدجر، فیروز، انوشروان وغیرہ متعدد بادشاہ شامل ہیں۔ ان کی جنگی سرگرمیوں کا تذکرہ بھی کیا گیا ہے۔ کتاب کے دیگر ابواب کی طرح یہ باب بھی بہت سے معلومات کا احاطہ کئے ہوئے ہیں۔
بعدازاں ملکوکِ چین اور بلادِ چین وغیرہ کے بارے میں واقعات معرضِ تحریر میں لائے گئے ہیں۔ اس نواح کے دریاؤں اور جزیروں کا ذکر کیا گیا ہے۔ وہاں کے لوگوں کے تہواروں، ان کی عادات و اطوار اور تہذیب و ثقافت کی نشان دہی کی گئی ہے۔ اس علاقے کے بعض ان دریاؤں کے بارے میں یہ بتایا گیا ہے کہ ان میں پانی کی مقدار م ہے۔یہ بھی بتایا گیا ہے کہ کون سے دریا کی حد کس دریا سے منسلک ہے، بعض کے حدودِ اربعہ کی طرف بھی اشارے کئے گئے ہیں۔ کتاب کے اس حصے میں ملوکِ مصر اور حکامِ قبطیہ کا تذکرہ بھی کیا گیا ہے۔ بربر، حبشہ، سوڈان، مملکتِ بجہ، ملوک یمن، ملوک شام، ملوک چرہ، جنگ کندہ و حضرموت کی بھی مناسب الفاظ اور دلچسپ و سادہ انداز میں وضاحت کی گئی ہے۔
حضرت اسماعیلؑ کی اولاد اور اس کے مختلف قبائل و انساب کا ذکر بھی کتاب میں موجود ہے۔ پھر عربوں کے مذاہب، ان کے حکام و اُمرا، ان کے سالانہ میلوں ، ان کی تجارتی منڈیوں، ان کے بازاروں، ان کے شاعروں اور ان کے ادیبوں کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ عربوں کی عادات و اطوار، ان کی تہذیب و ثقافت اور ان کے میل جول کے طور طریقے نہایت خوب صورت الفاظ میں حوالہ قرطاس کئے گئے ہیں۔
کتاب کی پہلی جلد جو مندرجہ بالا عنوانات پر مشتمل ہے، میں ہر ملک اور ہر دور کے واقعات اس نہج سے بیان کئے گئے ہیں کہ قاری محسوس کرتا ہے کہ وہ تمام واقعات و حالات اس کے سامنے وقوع پذیر ہورہے ہیں اور وہ ہر واقعہ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے۔
اب آئیے کتاب کی دوسری جلد کی طرف۔۔۔ ! یہ جلد نبی کریم ﷺ کی ولادت سے شروع ہوتی ہے اور اس میں آپؐ کی تاریخِ ولادت، آپؐ کا بچپن اور عہدِ شباب کے وہ تمام اہم واقعات بیان کردئے گئے ہیں، جن سے کسی نہ کسی نوعیت سے آپؐ کا تعلق رہا ہے۔ پھر آپؐ کی بعثت نزولِ قرآن کا آغاز، واقعہ معراج، ہجرتِ حبشہ، ہجرتِ مدینہ، نماز اور روزے کی فرضیت کا حکم، واقعہ بدر، واقعہ اُحد، واقعہ خندق، صلح حدیبیہ، واقعہ خیبر، فتح مکہ، جنگِ حنین اور غزوہ موتہ کے واقعات بیان کئے گئے ہیں۔ سرایا و جیوش کے اُمراء، آنحضرت کی خدمت میں وفودِ عرب کی حاضری، وہ مکتوبات جو آپؐ نے دنیا کے مختلف ملوک و رؤسا کے نام تحریر فرمائے اور انہیں قبولِ اسلام کی دعوت ی، ازواجِ مطہرات، آپ کے مواعظ و نصائح اور اخلاقی تعلیمات، حجتہ الوداع اور آپؐ کی وفات تک کے تمام واقعات تحریر کئے گئے ہیں۔ یہ واقعات جو نہایت حسن و خوبی سے تحریرکئے گئے ہیں، عربی کتاب کے سواسو صفحات پر مشتمل ہیں۔
اس کے بعد خلافتِ ابوبکرؓ اور ان کے عہد میں پیش آنے والے واقعات کا تذکرہ ہے۔ پھر خلافتِ عمرفاروقؓ اور اُن کی فتوحات کا ذکر کیا گیا ہے۔ حضرتِ عمرفاروق کے بعد حضرتِ عثمانؓ کا دور آتا ہے۔ اُن کی شہادت کے بعد حضرتِ علیؓ کی خلافت کا ذکر ہے۔ خلافائے اربعہ کا تذکرہ عربی کتاب کے کم و بیش نوے صفحات پر محیط ہے۔
اس سے آگے حضرتِ حسنؓ کی خلافت کا ذکر کرکے حضرتِ معاویہؓ کا دورِ خلافت شروع ہوجاتا ہے۔ ان کی وفات کے بعد یزید کی حکومت آجاتی ہے، اسی میں حضرتِ حسینؓ کی شہادت کا المیہ پیش آتا ہے۔ بعد ازاں بنوامیہ کے حکمرانوں کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔
132ھ سے اسلامی حکومت کی باگ ڈور عباسی خاندان کے ہاتھ میں آجاتی ہے۔ مصنف نے اس خاندان کے اٹھارہ حکمرانوں کا ذکر کیا ہے۔ ان کے دور کا اٹھارھوں عباسی حکمران احمد المعتمد علی اللہ تھا جو 14 رجب 256ھ کو مسندِ حکومت پر متمکن ہوا۔ کتاب میں واقعات سنین وار بیان کئے گئے ہیں اور مصنف نے 259ھ تک کے حالات قلم بند کئے ہیں۔
کتاب کی اردو ترجمے کی ضرورت محسوس کی جارہی تھی۔ یہ فریضہ مشہور مترجم و عالم مولانا اخترفتح پوری نے انجام دیا ہے۔ اردو ترجمے کی زبان صاف اور رواں دواں ہے۔ ترجمہ کرکے فاضل مترجم نے اسلامی تاریخ کی بھی خدمت انجام دی ہے اور اردو زبان و ادب میں قابلِ ذکر اضافہ بھی کیا ہے۔ کتاب کا مطالعہ قارئین کے لئے مفید ثابت ہوگا۔
تاریخ یعقوبی جلد اول
تاریخ یعقوبی جلد دوم