سندھ کی سماجی و ثقافتی تاریخ از ڈاکٹر مبارک علی 229

سندھ کی سماجی و ثقافتی تاریخ از ڈاکٹر مبارک علی

سندھ کی سماجی و ثقافتی تاریخ تحریر ڈاکٹر مبارک علی

زیرنظر کتاب “سندھ کی سماجی و ثقافتی تاریخ” مشہور تاریخ دان ڈاکٹر مبارک علی کی انگریزی تصنیف ” A Social and Cultural History of Sindh” کا اردو ترجمہ ہے. سردار عظیم اللہ ایڈووکیٹ کا شکریہ کہ جنہوں نے محبت اور دلچسپی کے ساتھ اس کتاب کو اردو میں منتقل کیا۔ اس کتاب کو یورپی سیاحوں اور سفارت کاروں کے بیانات کی روشنی میں ان کے بیانات و تاثرات کی بنیاد پر ترتیب دیا گیا ہے۔ اس میں ان سیاحوں اور سفارت کاروں نے سندھ کی جغرافیہ، لوگوں ، شہروں، حکمرانوں ، حکومت اور انتظامیہ کے بارے میں اپنے تاثرات بیان کئے ہیں۔ مگر ان سیاحوں کے بیانات اور ان کے تاثرات کو قبول کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ اس بات کو سمجھ لیا جائے کہ یہ دوسرے معاشروں اور ان کی سیاخت و سرگرمیوں کو اپنی روایات، اقدار اور تعصبات کی روشنی میں دیکھتے ہیں۔ ان کے لئے اپنے مختصر قیام کے عرصہ میں یہ مشکل ہوتا ہے کہ وہ معاشرے کی اندرونی تشکیل اور اس کے رجحانات کو پوری طرح سے سمجھ سکیں۔ مثلاً جہاں سندھ کے عوام کا تذکرہ ہوتا ہے تو امن کے بارے میں ان کے تاثرات یہ ہیں کہ یہ لوگ کاہل، سست اور نشہ کرنے والے ہیں۔ اب اگر کاہلی و سستی کے عوامل کو دیکھا جائے تو اس میں دو باتیں نظر آتی ہیں۔ اگر کسی ملک میں پیداوار ضرورت سے زیادہ ہوں اور لوگوں کے بنیادی تقاضے آسانی سے پورے ہوجائیں تو وہ کام کو آرام سے پورا کرتے ہیں۔ فرصت کے لمحات کو سیرو تفریح یا بات چیت و گپ شپ میں گزارتے ہیں۔ اس طرح ان کی زندگی پر حاوی نہیں ہوتا ہے بلکہ وہ کام کو اپنی مرضی کے مطابق تکمیل تک پہنچاتے ہیں۔
کاہلی و سستی کی دوسری وجہ یہ ہوتی ہے کہ جب لوگوں کو ان کی محنت کا پورا معاوضہ نہیں ملتا ہے تو وہ کام میں دلچسپی نہیں لیتے ہیں۔ اس صورت میں سستی و کاہلی ان کی مزاحمت کے طریقے ہوجاتے ہیں۔ لہٰذا لوگوں کی سستی و کاہلی کو اس تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔
سیاحوں کے ان بیانات سے ہمیں اس عمل کا بھی اندازہ ہوتا ہے کہ سندھ کے شہر کس طرح سے پسماندگی و زوال کی شکار ہوئے، خصوصیت سے ٹھٹھہ و شکارپور کے زوال کو ان بیانات کی روشنی میں بخوبی سمجھا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ دوسرے شہروں کے حالات سے اس وقت کی سیاسی و سماجی زندگی کا پتہ چلتا ہے۔
سیاحوں نے خصوصی طور پر لوگوں کے توہمات، اور مذہبی تعصبات کا بھی ذکر کیا ہے۔ مگر اس کو بھی حالات کے تحت دیکھنے کی ضرورت ہے۔ توہمات ہر اس معاشرے میں پیدا ہوتے ہیں کہ جہاں علم ٹھہرا ہوا ہو ، اور لوگ فطرت کی آفتوں اور حکمرانوں کے استحصال کا شکار ہوں۔ ایسی صورت میں لوگ ان توہمات میں پناہ لیتے ہیں۔ اگرچہ بات کو سیاحوں نے بہت زیادہ اُبھارا ہے کہ سندھ میں ہندوؤں کے ساتھ بُرا سلوک کیا جاتا تھا، مگر اب تحقیق کی روشنی میں ثابت ہوگیا ہے کہ سندھ کے حکمرانوں پر یہ الزام غلط لگایا گیا ہے، کیونکہ سندھی ہندو عاملوں اور تاجروں کی جو سماجی حیثیت تھی وہ ان بیانات سے مختلف ہے۔
سندھ کی حکمرانوں کے بارے میں بھی سیاحوں کے یہ تعصبات پوری طرح سے سامنے آتے ہیں۔ سندھ کے دربارکو مغل دربار یا ہندوستان کی دوسری ریاستوں کے درباروں کی روشنی میں دیکھنا سخت علطی ہے، کیونکہ تالپور حکمراں قبائلی سماج سے تعلق رکھتے تھے ، اس لئے ان کے ہاں ادب و آداب اور رسومات میں وہ شائستگی نہیں تھی جو دوسرے درباروں میں تھی۔ برطانوی ہند سے جو سفارت کار آئے وہ دربار، حکمرانوں اور امراء کے بارے میں تعصبانہ رویہ رکھتے ہیں ، اور باربار ان کے ہاں یہ اظہار بھی ہوتا ہے کہ سندھ کو فتح کرنا ان کے لئے آسان ہے کیونکہ میروں کے پاس نہ تو فوجی طاقت ہے اور نہ ان میں اتحاد ہے۔ ان سفارت کاروں نے سندھ پر قبضہ سے پہلے ہی سندھ کے بارے میں ہر قسم کی معلومات کو اکٹھا کرلیا تھا۔ اسی وجہ سے انہیں اسے فتح کرنے میں دقت نہیں ہوئی۔
لیکن ان تمام کمزوریوں کے باوجود ان سیاحوں اور سفارت کاروں نے سندھی معاشرے کے ان اہم پہلوؤں پر نظر ڈالی ہے کہ جو اکثر مقامی لوگوں کے لئے عام ہوتی ہیں، اور وہ انہیں نظرانداز کردیتے ہیں۔ چونکہ ہمیں ہم عصر تاریخوں میں ایسے مواد کی کمی نظر آتی ہے کہ جو سماجی و ثقافتی پہلوؤں کو اُجاگر کریں، اس لئے ان کے بیانات سے یہ کمی پوری ہوجاتی ہے۔
اس سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ دوسروں کی نظر میں ہمارا امیج کیا تھا؟ کیونکہ دوسرا جس بے رحمانہ طریقہ سے تنقید کرتا ہے، ہم اس طرح سے خود کو نہیں دیکھتے ہیں۔ اگر یہ سمجھا جائے کہ ان بیانات میں سندھ کی ایک ایک منفی تصویر کشی کی گئی ہے تو ضرورت اس بات کی ہے کہ چیلنج کو جواب دیا جائے۔ کیونکہ اس امیج کا اثر ابھی تک باقی ہے اور سندھ کے لوگ خود کو اس آئینہ میں دیکھ کر اپنے بارے میں رائے قائم کرتے ہیں۔

یہاں‌سے ڈاؤنلوڈ کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں