د عبدالقادرخان خٹک دیوان تیسرا ایڈیشن 203

د عبدالقادرخان خٹک دیوان تیسرا ایڈیشن

د عبدالقادر خان خٹک دیوان تیسرا ایڈیشن۔ تحقیق و ترتیب پروفیسر جہاں زیب نیاز ۔

زیر نظر کتاب “د عبدالقادرخان خٹک دیوان” پشتو کی کلاسیکی شاعری کا مجموعہ ہے۔ جس میں پشتو کے عظیم صوفی شاعر عبدالقادر خان خٹک کی شاعری کو ترتیب کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ عبدالقادر خان خٹک عظیم خوشحال خان خٹک کے فرزند ایک عالم، صوفی اور باصلاحیت شاعر تھے ۔ اپنے خاندان اور اپنے عظیم والد کی ادبی روایت کے سرپرست عبدالقادر خان خٹک اپنے انداز کے منفرد شاعر گزرے ہیں ۔ عشق و محبت کے موضوع کا یہ خوبصورت شاعر اس قدر معروف نہیں ہوئے جتنا اسے ہونا چاہیے تھا۔ اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ وہ اپنے دور کے دو عظیم اور مقبول شاعروں کے درمیان پیدا ہوئے تھے۔ چونکہ پشتونوں میں سخن فہمی کم اور طرفداری زیادہ ہوتی ہے ،اس لئے ان کے اس رویے کی وجہ سے عبدالقادر خان خٹک کے مقام سے کوئی بھی پوری طرح واقف نہیں ہوسکا ۔ انہوں نے اپنی شاعری میں جن خوبصورت جذبات اور پاکیزہ خیالات کا اظہار کیا ہے اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔
نایاب استعاروں ، خوبصورت زمینوں کے حسین سمندروں اور علوی خیالات کے حامل شاعر عبدالقادر خان خٹک، جنہوں نے مجازی عشق کی خوبیوں، مشاہدات اور ادراکات اور پھر تصوف کی حقیقی محبت کو جتنے میٹھے اور خوشنما انداز میں بیان کیا ہے، وہ ایک ایسا کمالِ فن ہے جو بہت کم پشتو شاعروں کو نصیب ہوا ہے۔ علمی، فنی اور ادبی اسلوب کے اعلیٰ معیار کا یہ دیوان اُن کے فن کے کمال کا ضامن ہے، لیکن شرط یہ ہے کہ اسے پڑھیں اور سمجھیں۔ اگر خطے میں غیرجانبدارانہ تنقیدی شعور غالب ہوا تو یقین ہے کہ عبدالقادر خان خٹک کو خوشحال خان خٹک اور رحمان بابا کے درجے پر ترقی مل جائے گی۔
عبدالقادر خان خٹک خوشحال خان خٹک کے اولا د میں دسویں نمبر پر ہیں۔ آپ 25 ذی الحجہ 1063 ہجری بمطابق نومبر 1653ء کو اپنے گاؤں اکوڑہ خٹک میں پیدا ہوئے۔ وہ اعلیٰ پائے کا شاعر، ادیب اور عالم ہونے کے علاوہ ایک اچھے سپاہی بھی تھے۔ وہ عربی اور فارسی زبانوں پر مکمل عبور رکھتا تھا اور طالبان کو بھی ان دونوں زبانوں میں پڑھاتا تھا۔ خوشحال خان خٹک کا دور جو پشتون قوم کا عظیم علمی، ادبی، تالیفی اور تصنیفی دور تھا، اس میں عبدالقادر خان نے بھی بڑا کردار ادا کیا۔ عبدالقادر خان قلم کے ساتھ ساتھ تلوار کے بھی ماہر اور بہت نڈر اور بہادر سپاہی بھی تھے۔ اس باصلاحیت شاعر کا انتقال 1913 کے آس پاس ہوا۔
عبدالقادر خان خٹک ایک سچے عالم دین اور شاعر تھے۔ انہوں نے اپنے دور میں پشتو زبان کی جو خدمت کی ہے وہ خوشحال بابا کے بعد تعلیمی معیار کی بنیاد پر پشتو کے لیے ایک عظیم کارنامہ ہے۔ شاید انہوں نے پشتو میں زیادہ لکھا ہو گا لیکن جو اُن کام ابھی تک دریافت ہو ہے ان میں سے ایک یہ شعری دیوان ہے جو کہ قیمتی فنی شاعری کا خزانہ ہے۔ اس دیوان کو حدیقہ خٹک کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔
عبدالقادر خان خٹک کا دیوان پہلی بار قندھار سے شائع ہوا، جس کی تدوین جناب عبدالحئی حبیبی نے کی۔ دوسرا ایڈیشن جسے ہمیش خلیل نے مرتب کیا، جو 1784ء میں دریافت ہونے والے ایک قلمی نسخے اور قندھار ایڈیشن کے موازنہ کے بعد شائع ہوئی تھی۔ مؤخر الذکر نسبتاً سابقہ سے زیادہ مکمل ہے۔
سنہ 1969 میں جناب سید انوار الحق نے کئی قلمی نسخوں اور متذکرہ قندھار ایڈیشن کے ساتھ موازنہ کرنے کے بعد یونیورسٹی بک ایجنسی پشاور سے “حدیقہ خٹک” کے عنوان سے شائع کیا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ انہوں نے اپنے مقدمہ میں پشاور کے مطبوعہ ورژن کا ذکر نہیں کیا ہے حالانکہ یہ حدیقہ خٹک سے دو سال پہلے شائع ہوئی تھی۔
عبدالقادر خان کا دیوان وقتاً فوقتاً افغانستان اور پاکستان کے مختلف اداروڼ نے شائع کیا ہے، مگر طویل مدت سے پھر نایاب ہوگیاتھا۔ لہٰذا پشتو اکیڈمی نے پشتونوں تک پہنچانے کے لیے دوبارہ ترتیب دیکر شائع کیا ہے۔ عبدالقادر خان خٹک کے دیوان کا یہ موجودہ اور تیسرا ایڈیشن جہانزیب نیاز نے پشاور ایڈیشن اور پشتو اکیڈمی کے پاس محفوظ ایک قلمی نسخہ کے ساتھ موازنہ کرنے کے بعد تیار کیا ہے۔ اس ایڈیشن کی بنیاد بھی مذکورہ بالا پشاور ایڈیشن ہی ہے۔
کتاب ” د عبدالقادرخان خٹک دیوان” پاکستا ن ورچوئل لائبریری کے قارئین کے مطالعہ کے لیے آنلائن پیش کی جارہی ہے۔ کتاب آنلائن پڑھنے اور مفت ڈاؤنلوڈکرنے کے لئے دستیاب ہے۔

یہاں سے ڈاؤنلوڈ کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں