خُطباتِ گارساں دتاسی از ڈاکٹر سید سلطان محمود حسین 161

خُطباتِ گارساں دتاسی از ڈاکٹر سید سلطان محمود حسین

خُطباتِ گارساں دتاسی از ڈاکٹر سید سلطان محمود حسین۔ پبلشر مجلسِ ترقی ادب کلب روڈ لاہور

زیر نظر کتاب مشہور فرانسیسی اردو پروفیسر اور ماہر لسانیات ” گارسین دتاسی ” کے حالات زندگی اور اُس کے کام کے بارے میں ایک مقالہ ہے جسے ڈاکٹر سلطان محمود حسین نے اپنے، پی ایچ ڈی کی ڈگری لے لئے تیار کیا تھا جس کے لئے انہوں نے نہ صرف پاکستان کے بلکہ دنیا کے اکثر و بیشتر کتاب خانوں سے استفادہ کرنے کی کوشش کی تھی۔ انہوں نے مختلف ملکوں اور بکثرت لوگوں کو بے شمار خطوط لکھے تھے، اور یہ بات عرض کرنے میں افسوس ہوتا ہے کہ اپنوں نے کم لیکن بیگانوں نے زیادہ تعاون کیا۔
ڈاکٹر صاحب نے ہر بات کی تحقیق کرنےکی بھرپور کوشش کی ہے اور اپنے بس کے مطابق اپنے مقالے کو بہتر سے بہتر بنایا۔ چنانچہ بلامبالغہ کہا جاسکتا ہے کہ ایسی محنت اور عرق ریزی سے ہمارے ملک میں بہت کم مقالے تیار ہوئے ہیں۔
یہ مقالہ بہت ضخیم اور بسیط تھا اور اُس کی اشاعت محدود وسائل کی وجہ سے بہت مشکل تھی ، اس لئے اس کتاب میں اس کے حواشی اور تعلیقات اجمالی طور پر شائع کی گئی ہیں۔ تاریخِ ادب و ادبیات کے شائقین کے لئے اس کے اہمیت اور افادیت سے انکار ممکن نہیں۔
“خُطباتِ گاریسیں دتاسی – ترتیب و تعلیقات” ایک اہم اور محنت طلب موضوع ہے۔ کیونکہ ہندوستان سے سینکڑوں میل دور رہنے والے اور اپنے ہی وطن میں بیٹھ کر، اردو کی درس و تدریس کرنے والے فرانسیسی فاضل گارسین دتاسی کی زندگی کے حالات اور اس کے کام کو ٹھوس اور جامع صورت میں پیش کرنا دشوار کام تھا۔ گارسین دتاسی کے سرسری حالات ہم کو مختلف کتابوں میں مل جاتے ہیں۔ ڈاکٹر محمد حمید اللہ صاحب نے “مقالاتِ گارسیں دتاسی” جلداول جو 164 میں شائع ہوا، کے احتتامیہ میں ڈاکٹر سیدہ ثریا حسین کے تحقیقی مقالہ کی مدد سے اس کے حالاتِ زندگی قدرے تفصیل سے دیے ہیں، مگر ادبی کا کی تفصیل نہیں دی۔ فاضل مقالہ نگار نے اس عظیم مستشرق کے کام کی تفصیل بھی دی ہے تاکہ اردو کے شیدائی اس کی شخصیت کے ساتھ ساتھ اس کے ادبی خدمات سے پوری طرح واقف ہوسکیں۔
فاضل مصنف نے سب سے پہلے ہندوستان اور دنیا کے دوسرے ممالک سے باہمی تعلقات کا ذکر کیا ہے۔ اس کے بعد ان ممالک کی تجارتی کمپنیوں کی ہندوستان میں آمد بتائی ہے۔ آخر میں 1857ء میں برطانیہ کی ایسٹ انڈیا کمپنی کا مغل بادشاہ کو شکست دے کر تختِ دہلی پر قبضہ کرلینے کا ذکر کیا ہے۔ سیاسی حالات بتانے کے بعد فرانس میں مشرقی زبانوں کی درس و تدریس کا ارتقائی جائزہ لیا ہے۔ پیرس میں زبانوں کے مدرسے کا تفصیلی ذکر کیا ہے کہ کس طرح فرانس میں “السنہ شرقیہ” کے درس و تدریس کا سلسلہ جاری ہوا اور یہ کہ سلوستر دی ساسی نے گارسین دتاسی کو اپنی شاگردی میں لیا اور اردو سیکھنے کا مشورہ دیا۔
گارسین دتاسی عربی، فارسی اور ترکی زبانیں سیکھ چکا تھا ، اردو کی تعلیم حاصل کرنے لئے اس نے انگلستان کا سفر بھی کیا۔ پیرس میں زبانوں کے لڑکوں کے مدرسے میں سلوستر دی ساسی کی کوششوں سے جب اردو کا شعبہ قائم ہوا تو گارسین دتاسی اس میں اردو کا پروفیسر مقرر ہوا۔ مصنف نے گارسین دتاسی کے باپ دادا کے حالات بیان کرنے کے ساتھ ساتھ اُس کی حالاتِ زندگی نہایت تفصیل سے بیان کئے ہیں، اور اُس کی کتابوں اور مقالات کے نام اردو کے ساتھ ساتھ فرانسیسی زبان میں بھی درج کئے ہیں۔ ڈاکٹر ثریا حسین نے 155 کتابوں اور مقالات کا کھوج لگایا تھا اور ڈاکٹر حمیداللہ نے تین کا اور اضافہ کیا ہے۔ مصنف نے اس تعداد میں ترمیم و اضافہ کیا ہے۔ گارسین دتاسی اپنے دو شہ کاروں کی وجہ سے اردو ادب میں اعلیٰ مقام رکھتا ہے۔ ایک “تاریخِ ادبیاتِ ہندوی و ہندوستانی” اور دوسرا ” خطبات و مقالات” ۔ تاریخِ ادبیات پر مصنف نے سیر حاصل تبصرہ کیا ہے اور اس پر ناقدین کے اعتراضات کا جواب بھی مدلل دیا ہے۔ اس کے بعد اس کے خطبات پر تفصیلی نظر ڈالی ہے۔
اس کے بعد مصنف نے ان مستشرقین کی اردو خدمات کا ذکر کیا ہے، جنہوں نے اُنیسویں صدی عیسوی میں اردو زبان میں اور اس زبان سے متعلق کتابین تصنیف و تالیف کیں۔ یہ مستشرقین تعداد میں ستر ہیں۔ ان میں بعض ایسے یورپی لوگ بھی ہیں جنہوں نے اردو شاعری کرکے اپنی اردو دوستی کا ثبوت دیا ہے، اور یہ یورپی اردو شعراء ، مالی ، سیاسی اور مذہبی فائدے سے بے نیاز تھے۔ اس طرح یہ لوگ گارسین دتاسی کے قریب قریب نظر آتے ہیں۔ ان کے اردو میں طبع آزمائی کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ اردو کی سلاست، شیرینی اور سادگی نے انہیں متاثر کیا ہے۔

یہاں‌سے ڈاؤنلوڈ کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں