ارمغان عالی جمیل الدین عالی فن اور شخصیت 157

ارمغان عالی جمیل الدین عالی فن اور شخصیت

کتاب: ارمغان عالی جمیل الدین عالی فن اور شخصیت
تحریر: متفرق مصنفین

زیر نظر کتاب جمیل الدین علی کی شخصیت اور فن پر مضامین کا وسیع مجموعہ ہے، جو اردو ادب کے نامور ادیبوں اور دانشوروں نے لکھے ہیں.ان مضامین میں جمیل الدین عالی کی ادبی کاوشوں اور اُن کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں‌ کا جائزہ پیش کیا گیا ہے۔
نواب زادہ جمیل الدین عالی پاکستان کے معروف شاعر، نامور نقاد،ڈرامہ نگار، مضمون نگار، اعلی پائے کا سفرنامہ نگار، منفرد کالم نگار اور عالم تھے. عالی صاحب اردو ادب کا ایک انتہائی قابل احترام نام ہے جنہوں نے غزل اور شاعری کے میدان میں بہترین کلام تحلیق کیا۔ ان کی شاعری جدید شعری منظر نامے میں بہت منفرد اور نمایاں مقام کا حامل ہے۔ عالی صاحب دو ہے اور نغمہ نگاری کے میدان میں مختلف اسلوب کے حامل شاعر ہیں. اُن کے لکھے ہوئے ملی نغمیں لوک ادب کا مقام رکھتے ہیں. اُن کے ملی نغمے لوگوں کے دلوں میں حب الوطنی کا لازوال جذبہ پیدا کرتے ہیں اور عوامی مقبولیت کے بلند مقام پر ہیں ۔ اس حوالے سے ہماری آنے والی نسلیں بھی ان کی احسان مند رہیں گے.
نوابزادہ مرزا جمیل الدین احمد خان 20 جنوری 1925 کو دہلی کے ایک ادبی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد امیر الدین احمد خان لوہارو کے نواب تھے. عالی نے بی اے تک تعلیم دہلی میں‌ہی حاصل کی۔
تقسیم ہند کے بعد، عالی اپنے خاندان کے ساتھ پاکستان ہجرت کر گئے اور کراچی میں‌رہائش اختیار کی اور وزارت تجارت میں بطور معاون اپنے کیریئر کا آغاز کیا۔ 1951 میں انہوں نے پاکستان کی سول سروس کا امتحان پاس کیا اور پاکستان ٹیکسیشن سروس میں شمولیت اختیار کی۔ وہ ایوان صدر میں 1959 سے 1963 تک اسپیشل ڈیوٹی افسر بھی رہے۔ عالی نے 1967 میں نیشنل بینک آف پاکستان میں شمولیت اختیار کی اور 1988 میں اپنی ریٹائرمنٹ تک اس کے نائب صدر رہے۔

جمیل الدین عالی پاکستان پیپلز پارٹی کے سابق رکن بھی تھے اور 1977 کے قومی اسمبلی کے انتخابات این اے 191 سے الیکشن میں‌بھی حصہ لیا تھا، لیکن جماعت اسلامی کے منور حسن سے ہار گئے۔ 1997 میں، عالی کو متحدہ قومی موومنٹ کی حمایت سے چھ سال کی مدت کے لیے سینیٹ کا رکن منتخب کیا گیا۔

عالی نے چھوٹی عمر میں ہی شاعری شروع کی اور کئی کتابوں کے ساتھ ساتھ گانے بھی لکھے۔ انہوں نے 1965 کی پاک بھارت جنگ کے دوران “جیوے جیوے پاکستان” گانا لکھا جو بہت مقبول ہوا۔ یہ گانا شہناز بیگم نے گایا تھا جس کی موسیقی سہیل رانا نے ترتیب دی تھی اور اسے 14 اگست 1971 کو پی ٹی وی نے ریلیز کیا تھا۔
اسی دوران عالی ذیابیطس اور سانس کی بیماری میں مبتلا ہوگئے اور انہیں کراچی کے ایک اسپتال میں داخل کرایا گیا تھا۔ ان کا انتقال 23 نومبر 2015 کو کراچی میں دل کا دورہ پڑنے سے ہوا، اور کراچی کے ایک فوجی قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔
اس ارمغان میں جو مضامین شامل ہے ان میں سے بیشترمیں اُن کی ادبی کاوشوں کے علاوہ مشاہیرِ عالم سے ان کے روابط کی ایک جھلک بھی ہے۔ وہ مشاہیر جنہوں نے ادب کے علاوہ سائنس، سیاسیات، معاشیات، امنِ عالم اور دیگر علوم میں عالمگیر شہرت حاصل کی اور چند نے تو نوبیل انعام یافتگان کے زمرے میں بلند مقام بھی پایا۔
اس ارمغان کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ مختلف مکتبہ فکر کے ادیبوں کی نگارشات پر مشتمل ہے۔ یہ ان کے طرفداروں ہی کا نہیں ان سخن فہموں اور دیدہ وروں کی تحریروں کا پہلا مجموعہ ہے جنہوں نے ان کی شاعری، ان کی نثر، ادیبوں کے لئے ان کی خدمات اور شخصیت کے مختلف پہلوؤن کو پیش نظر رکھ کے ان کی بہت سی کاوشوں ، کارناموں ، خامیوں اور ناکامیوں کا بے لاگ جائزہ لیا ہے۔

یہاں سے ڈاؤنلوڈ کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں