ہفت آسمان از ثمینہ راجہ 143

ہفت آسمان از ثمینہ راجہ

ہفت آسمان اردو شاعری از ثمینہ راجہ

ہفت آسمان محترمہ ثمینہ راجہ کا مجموعہ کلام ہے. ثمینہ راجہ ایک پاکستانی اردو شاعرہ، مصنفہ، مدیرہ، مترجم، ماہر تعلیم اور براڈکاسٹر تھیں۔ اپنی شاعری میں انہوں نے محبت اور چاہت کے نسوانی اور انسانی جذبات، ماضی اور ماضی کی پرانی یادوں، نئے دور کے سماجی و نفسیاتی مسائل، افسانوی اور مابعدالطبیعاتی عنوانات کو اجاگر کیا۔ ثمینہ راجہ اردو شاعری کے کلاسیکی اظہار میں جدید موضوعات کو بُننے میں ماہر تھیں۔” اس کے کلام میں ایک خاص خوبی اور فطری تازگی تھی۔ اس نے بہت زیادہ لکھا لیکن اپنے جوش اور انداز کو برقرار رکھا۔ ثمینہ راجہ فکری طور پر بہت مضبوط خاتون تھیں اور ان کی شاعری جدید اور کلاسیکی روایات کا امتزاج ہے۔
ثمینہ راجہ 11ستمبر 1961 کو رحیم یار خان میں پیدا ہوئی. انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے اردو ادب میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ 1973 میں انہوں نے شاعری شروع کی اور ان کی شاعری کی 15 کتابیں یکے بعد دیگرے شائع ہوئیں۔ انہوں نے اردو نثر میں بھی چند کتابیں بھی لکھیں، اس کے علاوہ نثر کے کچھ نادر کتابوں کو انگریزی سے اردو میں ایڈٹ اور ترجمہ کیا۔
وہ 1995 سے پاکستان ٹیلی ویژن پر آل پاکستان مشاعرہ منعقد کر تی تھیں، اور پی ٹی وی پر ادبی پروگرام “اردو ادب میں عورت کا کردار” بھی پیش کیا۔ ثمینہ نے 1998 میں نیشنل بک فاؤنڈیشن میں بطور کنسلٹنٹ شمولیت اختیار کی اور 1998 سے 2005 تک ماہنانہ کتاب کی ایڈیٹر کے طور پر کام کرتی رہیں۔ اس نے 2008 سے لیکر اپنی وفات تک ماہنامہ ادبی رسائل مستقبل ، آثار اور خوابگر کی بھی تدوین کی۔
ثمینہ نیشنل لینگویج اتھارٹی میں سبجکٹ سپیشلسٹ کے طور پر کام کرتی تھیں اور افسانوی شاعر احمد فراز پر ادبی میگزین خواب گر کا ایک خصوصی ایڈیشن نکالنے کا ارادہ رکھتی تھی۔ ثمینہ راجہ کو پرائم منسٹر ایوارڈ اور رائٹر ایوارڈ سے بھی نوازا گیا تھا ۔ تاہم انہوں نے اپنے ساتھ غیر مستحق افراد کی نامزدگی کا حوالہ دیتے ہوئے ایوارڈ قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ ثمینہ بہت حساس شخصیت کی مالک تھیں ، کئی بار انہوں نے ایسی ادبی تقریبات میں شرکت سے انکار کیا جہاں مہمان خصوصی وہ ہوتے تھے جن کا ادب سے کوئی تعلق نہیں ہوتا تھا۔
ثمینہ راجہ نے اردو ادب میں بہت سی منفرد اسلوب اور نظریات متعارف کروائے ۔ ان کی خواہشات میں سے ایک قرآن پاک کا اردو میں ترجمہ کرنا اور پھر اس اردو ترجمہ کو شاعری میں تبدیل کرنا تھا جو دنیا میں کبھی کسی نے نہیں کیا۔ اس نے اپنا پراجیکٹ یہ جانے بغیر شروع کیا کہ یہ اس کی زندگی کا آخری پراجیکٹ ہو گا، بیمار ہونے سے پہلے اس نے سورہ بقرہ سے شروع کیا اور آگے چلتی رہی، وہ مکمل کر کے شائع کرنا چاہتی تھی لیکن موت نے انہیں یہ مہلت نہیں دی، اور 31 اکتوبر 2012 کو اسلام آباد میں کینسر کے باعث انتقال کر گئی۔ ان کی وفات اردو ادب کا بہت بڑا نقصان ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں