موت کے مسافر ناول از اسلم راہی ایم اے 359

موت کے مسافر ناول از اسلم راہی ایم اے

اسلامی تاریخی ناول “موت کے مسافر” از اسلم رہی ایم اے

اسلامی تاریخ میں ساتویں صدی ہجری یا تیرھویں صدی عیسوٰ کا نصف اول ایک پُرآشوب دور تھا۔ جو سقوط بغداد پر منتج ہوا۔ اس مختصر سے عرصے میں ایک طرف ارضِ فلسطین کی بازیابی کے لیے یورپ کی تمام قوتیں مجتمع ہوکر عساکرِ اسلام سے نبردآزما ہورہی تھیں۔ تو دوسری طرف تاتاریوں نے منگولیا سے نکل کر اسلامی سلطنتوں پر یکے بعد دیگرے ہاتھ صاف کرنا شروع کردیئے ۔ جو سلسلہ چنگیزخان سے شروع ہوا تھا وہ ہلاکو خان کے ہاتھوں مکمل ہوا۔ مگر عباسی خلافت کے خاتمے میں ہلاکو کا اتنا زیادہ دخل نہ ہوا جتنا کہ معتصم باللہ کے وزیر ابنِ علقمی کی غداری کا۔ بغداد میں شیعہ سنی فسادات اور تعصبات نے ملتِ سلامیہ کو دولخت کردیا تھا۔ اور جب ملک اندرونی طور پر انتشار کا شکار ہو تو بیرونی قوتوں کو مداخلت کرنے اور اپنے مکروہ عزائم کی تکمیل کے سنہرے مواقع مل جاتے ہیں۔
اسلامی تاریخ کے تمام المناک واقعات چاہے وہ اسپین سے مسلمانوں کے اخراج سے متعلق ہوں ، بغداد کی تباہی کے بارے میں ہوں یا ہمارے اپنے عہد میں سقوطِ ڈھاکہ کی صورت میں رونما ہوں۔ دراصل میر جعفر اور میر صادق جیسے اربابِ اختیار اور غداران ملت کی شرمناک سازشوں کے آئینہ دار ہیں۔
لیکن ان حالات میں جب قوم فروش مقتدر حضرات اپنی ریشہ دوانیوں میں مصروف تھے۔ بہت سے ایسے مجاہد بھی تھے جو تمام ذاتی اغراض سے بالا تر ہوکر صرف دین کی خاطر ملک و ملت کے اندرونی اور بیرونی دشمنوں کا ہر محاذ پر مقابلہ کررہے تھے۔ تاریخ میں ایسے گمنام جانبازوں کا نام مشکل سے ہی ملے گا، کیونکہ مورخین کی نگاہ کا مرکز عموماً صاحبِ ثروت اور مسندِ حکومت پر متمکن شخصیات ہی ہوتی ہیں۔ علاوہ ازیں مورخ کا قلم جزئیات نگاری کی طرف مائل نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ بحرِ تاریخ کے مطالعے سے وہ گہری بصیرت اور شعور بمشکل ہی پیدا ہوسکتا ہے۔ جو کسی ادب پارہ سے باآسانی ہو سکتا ہے۔ علمِ تاریخ و ادب کے تاثرات قارئین پر مختلف ہوتے ہیں ۔ تاریخ عمومی تذکروں اور صداقت کے اصولوں پر مرتب کی جاتی ہے لیکن ادب میں تخیل کی حکمرانی ہے۔ اور جب تخلیقی تخیل کسی ادب پارے کی اساس ٹھہرے تو یہ صداقت کے ارفع ترین معیار کو چُھو لیتا ہے۔ چناچہ ادیب اور مورخ علیحدہ علیحدہ راستوں پر گامزن رہتے ہیں۔ تاریخ دان جسے اپنے عہد کا ہیرو سمجھتا ہے۔ بسا اوقات ادیب اسے اتنی اہمیت نہیں دیتا ، جبکہ غیر تاریخی افراد ادیب کے تخلیقی تخیل میں اہم کردار کا روپ دھار لیتا ہے۔
کچھ ایسا ہی معامہ زیرنظر ناول کے ہیرو ” عمیر بن خزام” کا ہے جو بیک وقت شاہ فرانس “لوئی نہم” کے لشکروں کا بھی مقابلہ کرتا ہے،اور ساتھ ہی بغداد کی خلافت کے تحفظ کے لئے اپنی ہر ممکن کوشش بھی کررہا ہے۔ وہ دُنیائے اسلام کی تمام سلطنتوں کے درمیان رابطہ بھی ہے اور سازشیوں اور غداروں کے لئے ایک مستقل خطرہ بھی۔ وہ لسانی اور علاقائی محبتوں سے بالاتر ہوکر صرف غلبہ اسلام کا خواہشمند ہے۔ اور اس عظیم مقصد کے حصول کے لئے دریائے سیرون کے کنارے مسکن میں موت کے مسافر اس کے ہر حکم کی بجاآوری کو اپنا فرضِ عین سمجھتے ہیں۔ اسلم راہی نے اسے ایک مجاہد کی روپ میں پیش کیا ہے۔ لیکن وہ ایک عام آدمی بھی ہے جو متاہلانہ زندگی کی ذمہ داریوں کو بھی پُورا کررہا ہے۔ جو دوستوں کا دوست ہے اور عام آدمیوں کی طرح اس میں شاید کچھ کمزوریاں بھی ہوں۔ لیکن بایں ہمہ وہ ایک پسندیدہ اور قابلِ تقلید ہستی ہے۔ اس کے جذبے کا خلوص اور مجاہدانہ عمل وہ خصوصیات ہیں جو ہر نوجوان کے لئے مشعلِ راہ بن سکتی ہیں۔
اسلامی تاریخی ناولوں کی قیامِ پاکستان کے وقت خاصی گرم بازاری تھی۔ ادب میں ان کے فروغ سے ایک ایسی نوجوان نسل تیار ہوئی جس نے علامہ اقبال کے فکر کو اپنا مسلک بنایا اور اس فکر کی تصویر کو تاریخی حوالے سے ملت کے مجاہدین میں جلوہ گر دیکھا۔ بعد ازاں تاریخی ناولوں کی طلب و رسد میں کچھ عرصہ کمی رہی لیکن پھر قارئین اپنے ماضی کے سرچشموں کر طرف توجہ کررہے ہیں۔ اسلم راہی صاحب کی زیرنظر کتاب جو جزوی طور پر ایک مقبول عام ڈائجسٹ میں بھی چھپتی رہی ، اب مکمل طور پر مکتبہ القریش کے توسط سے منظرِ عام پر آئی ہے۔ اس کے حسن و متج پر کوئی رائے دینا دراصل قائین کا حق ہے۔ مگر مجھے امید واثق ہے کہ اسلامی تاریخی ناولوں کے سلسلے میں ایک اہم قدم اٹھایا گیا ہے اور باذوق اصحاب اسے ہیت و معنوی لحاظ سے نہ صرف اسلم راہی صاحب کی سابقہ کتب کے مقابلے میں بہتر سمجھیں گے بلکہ اسے عام لٹریچر سے بھی جو تاریخی ناولوں کے نام سے چھپ رہا ہے جدرجہاں ارفع، فنی لحاظ سے زیادہ مکمل اور تاریخی طور پر حقیت سے قریب ترین پائیں گے۔


یہاں سے ڈاؤنلوڈ کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں