امرتا پریتم کے انمول افسانے - امرتا پریتم کے 100 منتخب افسانوں کا مجموعہ 206

امرتا پریتم کے انمول افسانے

امرتا پریتم کے انمول افسانے – امرتا پریتم کے 100 منتخب افسانوں کا مجموعہ

امرتا پریتم کے انمول افسانے محترمہ امرتا پریتم نے کی تصنیف ہے۔ اس کتاب میں امرتا پریتم کے اردو زبان میں 100 شاہکار اردو افسانے شامل ہیں۔ امرتا پریتم کا شمار برصغیر کی ممتاز ادیبوں اور پنجابی زبان کی مشہور شعرا میں ہوتا ہے۔ وہ نہایت صاف گو اور نڈر شخصیت کے مالک تھی۔ برصغیر کی تقسیم کے دوران رونما ہونے والے خونی واقعات نے ان کے دل و دماغ پر گہرا اثر مرتب کیا، اور اس نے جس طرح سے ان ہولناک اور خونی واقعات، خواتین اور معصوم بچوں پر ہونے والے مظالم کو قلم بند کیا، اس نے انہیں 20ویں صدی کا سب سے بڑا اور مشہور ناول نگار بنا دیا۔ امرتا کے متعلق بہت کم اردو دانوں کو معلوم ہوگا کہ وہ صرف پنجابی زبان کی شاعرہ ہی نہیں ، بلکہ ایک مسلمہ ادیب اور افسانہ نگار بھی تھی۔ پیش نظر کتاب میں بھی اُس کی شاہکار افسانوں کا ایک مجموعہ پیش کیا جارہا ہے۔
ہر زمانے کا ادب اپنے وقت کے ذہنی، معاشی، اور سیاسی رجحانات سے متاثر ہوتا ہے۔ وقت ایک سمندر ہے، اور اخلاقی و سماجی قدریں اس سمندر کی لہریں ہیں۔ بہت کم ادیب ایسے ہونگے جو اپنی کشتی کا ایک خودمختار رخ مقرر کرسکیں۔ وہ اپنے آپ کو ان لہروں کے سپرد کردیتے ہیں۔ درحقیقت ایسا نہیں ہونا چاہئے۔ ادیب لہروں کے سہارے پر بہنے والے حقیر تنکے نہیں ہیں۔ لہروں کو پاش پاش کرکے اپنے قافلے کی راہنمائی کرنے والے حوصلہ مند ملاح ہیں۔ افسوس ہے بہت کم ادیبوں نے اپنی قوت اور اپنے فرض کا اندازہ لگایا ہے۔ بے شمار لکھنے والے اپنی راہ سے بھٹک جاتے ہیں۔ وہ عوام کی رہبری نہیں کرتے، ان کی پیروی کرتے ہیں۔ سچا ادیب عوامی جذبات کا پیروکار نہیں بن سکتا، راہنما ہی بنے گا۔
موجودہ وقت، ادیبوں اور افسانہ نگاروں کے لئے ایک نازک وقت ہے۔ عوام کے مطالب بہت پست ہیں۔ اخلاقی قدریں بہت گر گئی ہیں۔ ترقی پسند ادب نے جسے تنزل پسند ادب کا نام دینا زیادہ مناسب ہے، ان کا مذاق بگاڑ دیا ہے۔ تیسرے درجے کی فلموں ، عریاں افسانوں اور ناولوں نے اُن میں نہایت گھٹیا قسم کے شوق پیدا کئے ہیں۔ نام نہاد افسانہ نگاروں اور ادیبوں کا ایک طبقہ عوام کی اس ذہنیت سے فائدہ اُٹھا کر ادنیٰ درجے کا لٹریچر پیدا کررہا ہے۔ انہوں نے اپنی ذمہ داریوں سے مجرمانہ بے پروائی اختیار کر رکھی ہے۔
کسی دانا کا قول ہے ” کسی ملک کی شان و شوکت اس ملک کے مصنفوں کی بدولت ہوتی ہے، لیکن یہ اسی وقت جب مصنفین پیغمبرِ خرد ہوں۔ اگر اُن سے اخلاق حسنہ کے سبق نہ ملیں، تو ان کے گلے میں ہار کے بجائے طوقِ لعنت ہونا چاہیے”۔ اس حقیقت کا اعتراف کتنا تکلیف دہ ہے کہ ہمارے “ترقی پسند” مصنفوں کی نئی کھیپ آنے والی نسلوں کے نزدیک طوقِ لعنت ہی کی مستحق ہوگی۔
اس مایوس کن فضا میں اگر کوئی ادیب یا شاعر اپنی حقیقی ذمہ داریوں کا احساس رکھتا ہے، اور عوام کے پیچھے چلنے کے بجائے اُن کی پیشوائی کو اپنا حق سمجھتا ہے، تو بلاشبہ وہ غیر معمولی عزت و توقیر کا مستحق ہے۔ اس نقطہ نگاہ سے جب ہم امرتہ کی شاعری اور اس کے افسانوں کا جائزہ لیتے ہیں، تو لازماً اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ اُسے اپنے شاعرانہ اور ادبی فرائض کا گہرا احساس ہے۔ وہ اپنے ہمعصر شاعروں اور ادیبوں کی “ترقی پسندانہ” روش سے بالکل متاثر نہیں ہوئی۔ اُس کے افسانے، اس کی نظموں کی طرح بہتریں اخلاقی قدروں سے مالا مال ہیں۔ ایک بھی افسانہ ایسا نہیں ہے، جس پر حیاء و اخلاق کے نقطہ نظر سے کوئی حرف رکھا جاسکے۔
اُس کے افسانوں میں، افسانے کے سارے عناصر موجود ہیں۔ اُس کے کرادر عام انسانی کردار ہیں، اگرچہ وہ افسانہ نگاری کی شہرت کی مالک نہیں، لیکن ان افسانوں کا ایک سرسری جائزہ بھی، اس نتیجے پر پہنچا دے گا کہ امرتہ افسانہ نگاری کے سارے اوصاف سے بہرمند ہے۔ وہ مطالعہ کرسکتی ہے، سوچ سکتی ہے، اور قابلیت اور فن کاری کے ساتھ اپنے مطلب کو عمدہ پیرائے میں بیان کرسکتی ہے۔ وہ صرف واقعات کے عینی مشاہدے پر اکتفا نہیں کرتی بلکہ اپنے افسانے کے ہر کردار کا نفسیاتی جائزہ بھی لیتی ہے۔ انسانی زندگی کا “جذباتی مطالعہ” بھی اُس کے ہر افسانے میں نمایاں ہے۔
وہ اپنے افسانوں کے لئے نئے نئے موضوع تلاش کرتی ہے۔ اور اپنی اس کوشش میں وہ بہت حد تک کامیاب ثابت ہوئی ہے۔ اُس کے خیال اچھوتے ہیں، اُس کی راہیں جدید ہیں۔ اُس کا “ائیڈیل” تحریبی نہیں ، تعمیری ہے۔ نظم کی طرح وہ افسانوں میں بھی اپنے پڑھنے والوں کو “پیغام” دیتی ہوئی نظر آتی ہے۔ اُس کا پیغام زندگی اور محبت کا پیغام ہے۔
اُس کے افسانے صحیح معنوں میں مختصر افسانے ہیں۔ بعض افسانے شعروں کی طرح ضرورت سے زیادہ مختصر بھی معلوم ہوتے ہیں۔ پڑھنے والے کا جی چاہتا ہے کہ وہ قدرے اور مفصل ہوتے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر وہ اتنے مختصر نہ ہو تو امرتہ کے قلم میں اتنی قوت موجود ہے کہ وہ اپنے جمال کو تفصیل کا رنگ دے کر اُن کی جاذبیت بھی بڑھا سکے، لیکن یہ محض “تعارف نویس” کا ذوقی مطالبہ ہے، ضروری نہیں ہے کہ ہر پڑھنے والا اُس کے خیال سے پوری طرح متفق ہو۔ یقین ہے کہ افسانوں کا یہ مجموعہ اردو ادب میں نمایا جگہ حاصل کرے گا۔

یہاں سے ڈاؤنلوڈ کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں