لولاک از چندربھان خیال 137

لولاک از چندربھان خیال

کتاب ” لولاک” از چندربھان خیال

لولاک کتاب جس کی تصنیف چندر بھان خیال نے کی۔ “لولاک” سیرت نبوی پر ایک طویل نظم ہے۔ اسے چھ ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے، اور ہر باب کی موضوعاتی ضرورت کو سمجھتے ہوئے چار بحروں کا استعمال کیا گیا ہے۔ اس نظم میں چندر بھان خیال نے حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک زندگی کے اہم سوانحی، تاریخی، اخلاقی اور روحانی حقائق کو ایک نئی اور منفرد انداز میں بڑی فنی نزاکت کے ساتھ بیان کیا ہے۔ ۔ انہوں نے اپنے قارئین کو بتایا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نزول کے بعد زندگی میں بہت بڑا انقلاب آیا ہے۔ اس طویل نظم کی تخلیق میں چندر بھان خیال کی فکری گہرائی، گیرائی اور بلندی کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ان کی اس غیر معمولی نظم میں ہم انوکھا لب و لہجہ، منفرد رنگ و آہنگ، منفرد عکاسی اور جذبات و خیالات کی بے پناہ شدت کو واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں۔
زیرِ نظر نظم “لولاک” سیرتِ نبویؐ پر مبنی ان کی کاوش کا اعلیٰ ترین نمونہ ہے جس میں پیغبرِ انسانیت کی سیرت کے اہم گوشوں کو جدید اسلوب میں پوری مہارت سے اُجاگر کیا گیا ہے۔نظم کی ابتدا پیغمبرِ اسلام ﷺ کی ولادت با سعادت سے قبل کے واقعات و حالات پر مشتمل ہے۔ اس کے بعد ولادت ِ نبوی، ہجرت، جہاد اور نصرت کے عنوان سے اس نظم کی تکمیل کی گئی ہے۔ ماقبل ولادت کی جو منظر کشی اس نظم میں کی گئی ہے، اس سے صحراء عرب کا ایک ایک نقش اُبھر کر سامنے آجاتا ہے۔ استعارہ و ابہام کے ذریعہ جو خوبصورت تعبیریں کی گئی ہیں وہ اپنی مثال آپ ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ قبلِ ولادت عرب قوم کی جو تصویر کشی انہوں کی ہے اور اس کا جو پیکر قاری ے سامنے وہ لائے ہیں اس میں تاثیر کا جادوئی اثر پیدا کرنے میں انہیں پوری کامیابی ملی ہے۔
چندربھانُ خیال صاحب نظم گوئی میں ایک منفرد لب ولہجہ کے حامل شاعر ہیں۔ ان کی نظموں کے دو مجموعے اس طویل نظم “لولاک” سے پہلے منظرِ عام پر آچکے ہیں۔ پہلا مجموعہ “شعلوں کا شجر” اور دوسرا مجموعہ ” گمشدہ آدمی کا انتظار” ہے۔ یہ دونوں مجموعے اربابِ فن سے خراج و تحسین حاصل کرکے اپنی معتبریت پر مُہر لگوا چکے ہیں۔
“لولاک” ایک مسلسل نظم ہے جس کو پڑھنے سے یہ احساس بیدار ہوتا ہے کہ شاعر کو اپنے مافی الضمیر کے اظہار پر پوری قدرت حاصل ہے اور تصورات کا پیکر ڈھالنے میں ، الفاظ کی آذری میں اسے مہارت اور عبورِ کامل قدرت نے عطا فرمایا ہے۔ اس سلسلہ میں وہ الفاظ کا انتخاب پوری چابک دستی سے کرتے ہیں۔ بالخصوص وہ مقامات جہاں مفہوم کو الفاظ کے پیکر میں ڈھالنا جوئے شیر لانے اور سنگلاخ وادیوں سے گزرنے کے مترادف ہے۔ ان مقامات سے خیال صاحب بڑی سُبک روی سے گزر جاتے ہیں۔
چندربھان خیال صاحب نے اگرچہ سیرت کے تمام پہلوؤں کا احاطہ نہیں کیا ہے اور نہ ہی کوئی شاعر ایسا کرسکتا ہے۔ یہ کمی حفیظ جالندھری جیسے عظیم شاعر کے یہاں بھی پائی جاتی ہے مگر اس نظم میں خوبی یہ ہے کہ پوری نظم پڑھنے کے بعد پیغمبر ﷺ کی سیرت کا تفصیلی خاکہ اجمالی شکل میں سامنے آجاتا ہے ، جو لائقِ تحسین ہے۔

ڈاؤنلوڈ کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں